عسکری اخراجات، سعودی عرب نے روس کو پیچھے چھوڑ دیا
5 اپریل 2016امن پر تحقیق کرنے والے سویڈش ادارے’ سپری‘ کی تازہ رپورٹ کے مطابق سال 2015ء کے دوران عالمی سطح پر عسکری شعبے پر خرچ کی جانے والی رقوم میں ایک فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس تقریباً 1.7 ٹریلین ڈالر اسلحے کی خرید و فروخت پر خرچ کیے گئے۔ 2011ء کے بعد ہونے والے اس پہلے اضافے کی وجہ مختلف ممالک میں جاری تنازعات ہیں، جن میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جاری بین الاقوامی اتحاد کی کارروائیاں، ایران سے خوف، یمن اور شام کے تنازعات سر فہرست ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق بحیرہ جنوبی چین میں بیجنگ حکومت کی بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیاں، کریمیا میں روسی مداخلت اور مشرقی یوکرائن میں باغیوں کی حمایت بھی عسکری اخراجات میں اضافے کا سبب بنی ہے۔
سپری کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب عالمی سطح پر تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں نے بہت سے ممالک کو پریشان کیا ہوا ہے اور کئی ممالک نے اپنے دفاعی اخراجات بھی کم کر دیے ہیں تو اس صورتحال میں یہ اضافہ غیر معمولی تناؤ کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکا نے گزشتہ برس 596 ارب ڈالر جبکہ چین نے 215 ارب ڈالر دفاعی شعبے پر خرچ کیے جبکہ اس فہرست میں تیسرا نام سعودی عرب کا ہے، جس نے 87.2 ارب کا اسلحہ خریدا۔ اس سے قبل روس اس فہرست میں تیسرے نمبر پرتھا تاہم ماہرین کا خیال ہے روسی کرنسی روبل کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے روسی دفاعی اخراجات 66.4 ارب ڈالر رہے۔ اس فہرست میں اس کے بعد برطانیہ،بھارت، فرانس، جاپان اور پھر نویں نمبر پر جرمنی کا نام آتا ہے جبکہ دسویں نمبر پر جنوبی کوریا ہے۔
یورپ میں دفاعی شعبے میں اٹھنے والے اخراجات میں1.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے میں اہم کردار مشرقی یورپی ممالک نے ادا کیا ہے، جنہوں نے مشرقی یوکرائن کے بحران کے رد عمل میں اپنے عسکری اخراجات بڑھائے۔ دوسری جانب گزشتہ برس کے دوران سب سے بڑے پیمانے پر دفاعی اخراجات کو کم کرنے والا ملک وینزویلا رہا۔ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اس ملک کو اپنے فوجی بجٹ میں 64 فیصد تک کی کمی کرنا پڑی۔