عسکری مداخلت کا مقصد انسانی حقوق کا دفاع ہے، روس
3 مارچ 2014یوکرائن نے الزام عائد کیا ہے کہ روس نے کریمیا میں اپنے اڈے پر مزید فوجی اور عسکری طیارے بھیج دیے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف کا کہنا ہے کہ کریمیا میں حالات کی بہتری تک فوجیوں کی تعیناتی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ان کے شہریوں اور ساتھیوں کے دفاع کا معاملہ ہے۔ لاوروف نے زور دیا کہ یہ انسان جانوں کے تحفظ کا معاملہ ہے جو انسانی حقوق میں سب سے اہم ہے۔
سیرگئی لاوروف نے مغربی ملکوں کو ’پابندیوں اور بائیکاٹ‘ کی دھمکیاں دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ روس کے وزیر اعظم دیمتری میدویدیف نے کہا کہ ماسکو حکومت یوکرائن کے نئے حکام کو تسلیم نہیں کرتی۔ انہوں نے پیرکو ایک بیان میں کہا کہ وکٹر یانوکووچ کے ملک چھوڑنے کے بعد نئی قیادت نے آئین کی خلاف ورزی کی۔
میدویدیف نے یہ بیان سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بُک پر جاری کیا۔ اس میں ان کا مزید کہنا تھا کہ بھلے ہی وکٹر یانوکووچ کا اخیتار نظرانداز کر دیا گیا ہے لیکن یوکرائن کے اصل صدر وہی ہیں۔
یوکرائن کے وزیر اعظم آرسینی یاٹسینی یُک نے خبردار کیا ہے کہ ان کے ملک میں عسکری تنازعہ پورے خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہو گا۔ انہوں نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ کریمیا کے روسی نژاد باشندے خود کو وہاں کے رہنما قرار دے چکے ہیں لیکن انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی جائے۔
یاٹسینی یُک نے یہ بھی کہا کہ وہ بحران کے سفارتی حل کے حق میں رہے ہیں اور آج بھی اس کی حمایت کرتے ہیں۔ کریمیا کے ساتھ ساتھ اب دیگر علاقوں میں بحران کے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ پیر کو یوکرائن کے مشرقی شہر دونیتسک میں روس نواز مظاہرین نے علاقائی حکومت کی ایک عمارت کے ایک حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنے ایک نامہ نگار کے حوالے سے بتایا ہے کہ مظاہرین نے عمارت کی پہلی منزل پر قبضہ کر لیا ہے تاہم دیگر حصوں کی طرف بڑھنے کی ان کی کوششیں ناکام بنا دی گئی ہیں۔
اس بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر برسلز میں یورپی وزرائے خارجہ کی پیر کو ہونے والی ملاقات کا مقصد یوکرائن کے شورش زدہ علاقے کریمیا میں روس کی عسکری مداخلت پر مشترکہ مؤقف اختیار کرنا ہے۔ اُن کے ردِ عمل میں اقتصادی پابندیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔
آئرلینڈ کے وزیر خارجہ ایمون گِلمور نے اس اجلاس سے قبل کہا کہ روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے پہلو پر بات چیت ہو گی۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق دیگر متعدد یورپی رہنماؤں نے محتاط رویہ اختیار کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ فی الحال سفارتی حل پر توجہ دی جانی چاہیے تاکہ روس اور یوکرائن کی نئی قیادت کے درمیان براہ راست بات چیت کی راہ ہموار کی جا سکے۔
جرمنی کے وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مار کہہ چکے ہیں کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے یہ یورپ کا سب سے بڑا ڈرامائی بحران ہے۔