غریب ملکوں کے خسارے کی ایک وجہ بدعنوانی بھی، رپورٹ
3 ستمبر 2014اس گروپ نے جی ٹوئنٹی ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ پسماندہ ملکوں کو پہنچنے والے اس نقصان کی وجوہات کے خلاف کارروائی کریں جن میں منی لانڈرنگ، رشوت، ٹیکس چوری اور بدعنوانی شامل ہیں۔ ’وَن‘ تنظم نے ان ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ رواں برس نومبر میں اپنے سالانہ اجلاس میں اس صورتِ حال پر غور کریں۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم اس گروپ نے ترقی پذیر ملکوں کے لیے بدعنوانی کی اقتصادی قیمت کے موضوع پر رپورٹ بدھ کو آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا میں جاری کی ہے۔ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں امریکا، کینیڈا، سعودی عرب اور جنوبی افریقہ کے سفارت کار بھی شریک ہوئے۔
وَن تنظیم آسٹریلیا کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ جی ٹوئنٹی کے آئندہ سالانہ اجلاس میں اپنی صدارت کا استعمال کرتے ہوئے رازداری کی روایت کا خاتمہ کرے، جس کی وجہ سے بہت سے ملکوں میں بدعنوانی اور جرائم کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔
اس رپورٹ کو ’دی ٹریلین ڈالر اسکینڈل‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ بدعنوانی کے ذریعے پسماندہ ملکوں سے پیسہ ہتھیانے کی کارروائیوں کو روک دیا جائے اور وہی پیسہ صحت کی سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کیا جائے تو تقریباﹰ چھتیس لاکھ جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
اس رپورٹ کے مصنف ڈیوڈ مکنائر کا کہنا ہے: ’’ترقی پذیر ممالک منی لانڈرنگ، رشوت اور ٹیکس چوری کے نتیجے میں ہر سال ایک ٹریلین ڈالر کا نقصان اٹھا رہے ہیں اور ناقابلِ فراموش سچائی یہ ہے کہ اکثر جی ٹوئنٹی ملکوں کی جانب سے بنائی گئی پالیسیاں غریب ملکوں کو نقصان پہنچانے کی کارروائیوں میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔‘‘
مکنائر نے ورلڈ بینک کی ایک تحقیق کا حوالہ دیا جس کے مطابق 1980ء کے بعد سے سامنے آنے والے بڑے مالیاتی اسکینڈلز میں مشکوک کمپنیاں ملوث رہی ہیں جن کے مالکان کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔
برطانوی ورجن آئلینڈز اور امریکی ریاست ڈیلویئر ایسی کمپنیاں رجسٹرڈ کروانے والوں کی پسندیدہ جگہیں ہیں۔ مکنائر نے رواں ہفتے آسٹریلوی وزیر اعظم ٹونی ایبٹ کے دفتر، محکمہ خزانہ اور خارجہ و تجارت کے امور کے محکمے کے اہلکاروں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں اور انہیں وَن کی سفارشات کی حمایت کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔