فرانس آٹسٹک افراد کی تعلیم و تربیت میں ناکام :یورپی کمیٹی
18 مئی 2012گزشتہ ماہ فرانس کی صحت کے شعبے کی ایک رپورٹ شائع ہوئی جس سے یہ انکشاف ہوا کہ سائنسدانوں کے مابین اس بارے میں عدم اتفاق پایا جاتا ہے کہ ’آٹزم‘ یا خود محوری کے شکار بچوں پر سائیکو تھراپی یا نفسیاتی علاج کار آمد ثابت ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ یہ طریقہ علاج ڈاکٹروں کی طرف سے دیے گئے مشوروں کی فہرست میں بھی شامل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ حالات میں آہستہ آہستہ تبدیلی آ رہی ہے تاہم اس بارے میں اب بھی مزاحمت پائی جاتی ہے۔
اس رپورٹ پر فرانس کے نفسیاتی معالجوں کے حلقے کی طرف سے خاصا شور کیا جا رہا ہے۔ ’فرائیڈین سوسائیٹیز، دی ورلڈ ایسوسی ایشن آف سائیکو انیلیسز‘ اور فرانس کے چائلڈ انسٹیٹیوٹ‘ کی طرف سے ایک دعویٰ دائر کیا گیا ہے جس میں پیرس حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان اداروں سے منسلک نفسیاتی معالجوں کے ’آٹزم‘ یا خود محوری کے علاج سے متعلق نقطہ نظر کو تسلیم کرے۔
ڈاکٹر فریڈ فولکمر ایک امریکی ماہر ہیں اور Yale University میں چائلڈ اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فرانس کی موجودہ صورتحال 1950ء کی دہائی میں امریکا میں پائی جانے والی صورتحال جیسی ہے۔ اُن کے بقول،’فرانسیسی ’آٹزم‘ یا خود محوری کے بارے میں ایک انوکھے مزاج کے حامل ہیں اور کسی وجہ سے وہ شواہد سے قائل نہیں ہو رہے ہیں‘۔
برطانیہ، کینیڈا، جاپان، امریکا اور یورپ کے دیگر ممالک میں آٹسٹک بچوں کو عام طور پر دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنے اور سماجی مہارت کی تربیت دی جاتی ہے۔ تاہم فرانس میں یہ طریقہ شاذ و نادر ہی مستعمل ہے۔
فرانس میں آٹسٹک بچوں کے طریقہ علاج کو ایک طویل عرصے سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 2002ء میں ’چیرٹی آٹزم یورپ‘ نے کونسل آف یورپ کے اشتراک سے فرانس کے خلاف ایک مہم چلائی تھی۔ اُس نے فرانس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ’آٹزم‘ یا خود محوری کے شکار بچوں کے علاج کے لیے ’یورپین سوشل چارٹر‘ کے تحت طے شدہ طریقہ تعلیم سے روگردانی کر رہا ہے۔ سماجی حقوق کی یورپی کمیٹی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ فرانس میں آٹسٹک افراد کو معاشرے سے ’الگ تھلگ‘ کر دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے پیرس حکومت شدید تنقید کا بھی نشانہ بنی تھی۔ فرانس پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ آٹسٹک افراد کی تعلیم و تربیت میں ناکام رہا ہے۔
Km/aa (AP)