فرانسیسی وزیر اعظم کا انتہا پسند مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ
7 نومبر 2020وزیر اعظم ژاں کاسٹیکس نے یہ بات ہفتہ سات نومبر کے روز جنوبی فرانس کے شہر نِیس میں وہاں ایک حالیہ دہشت گردانہ حملے کے ہلاک شدگان کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
نِیس میں 29 اکتوبر کے روز تیونس سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ایک مقامی چرچ میں ایک دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔
پیرس حملے میں ملوث پاکستانی تحریک لبیک پارٹی سے متاثر تھا
ملزم نے، جو ایک بڑے چاقو سے مسلح تھا، ایک خاتون کا سر قلم کر دینے کے علاوہ دو دیگر افراد کو قتل بھی کر دیا تھا۔ اس حملے کے وقت ملزم 'اللہ اکبر‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔
اس حملے کے دوران یہ شدت پسند خود بھی پولیس کی گولی لگنے سے شدید زخمی ہو گیا تھا۔ اسے فوری طور پر ہسپتال پہنچا دیا گیا تھا، جہاں اس کی حالت ابھی تک تشویش ناک ہے۔
دشمن کا نام: 'انتہا پسندانہ اسلام‘
اس پس منظر میں نِیس میں منعقدہ یادگاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی سربراہ حکومت ژاں کاسٹیکس نے آج کہا، ''ہم اپنے دشمن کو پہچانتے ہیں۔ اس کی نہ صرف شناخت ہو چکی ہے، بلکہ اس کا ایک نام بھی ہے۔ اس دشمن کا نام 'انتہا پسندانہ اسلام‘ ہے، جو ایک سیاسی نظریہ ہے اور جو ایک مذہب کے طور پر اسلام کے منافی ہے۔‘‘
'دہشت گرد' ماکروں مسلمانوں کو اشتعال دلا رہے ہیں، رمضان قدیروف
وزیر اعظم کاسٹیکس نے تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''اس دشمن کے خلاف آخر تک انتھک جنگ کے لیے پیرس حکومت تمام ضروری وسائل بروئے کار لاتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر اپنی تمام تر توانائیاں استعمال کرے گی۔‘‘
'انتہا پسندی اسلام کے اصل پیغام کے منافی‘
نِیس میں اس حملے سے قبل 16 اکتوبر کے روز پیرس کے مضافات میں ایک 18 سالہ چیچن نژاد مہاجر نے بھی ایک بڑے چاقو سے حملہ کرتے ہوئے ایک ایسے فرانسیسی ٹیچر کا سر قلم کر دیا تھا، جس نے اپنی کلاس میں طلبا کو پڑھائی کے دوران آزادی اظہار رائے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے پیغمبر اسلام کے خاکے دکھائے تھے۔
فرانس: استاد کا سر کاٹنے والا مبینہ حملہ آور 18 سالہ چیچن تھا
اس پس منظر میں فرانسیسی وزیر اعظم نے نِیس میں اپنے خطاب میں کہا، ''انتہا پسندوں کا اسلام ان کا ایسا سیاسی پیغام ہے، جس کے ذریعے وہ اسلام کی اصل روح اور اس کے حقیقی پیغام کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔‘‘
م م / ع س (ڈی پی اے، اے ایف پی)