فوج کی مقبولیت کا گیلپ سروے تنقید کی زد میں
28 ستمبر 2023ری ایمیجننگ پاکستان کی درخواست پر کیے جانے والے اس سروے کو کئی حلقے غیر حقیقت پسندانہ قرار دے رہے ہیں۔ تاہم سروے کرنے والے گیلپ لیب پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس نے تمام سائنسی اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس سروے کو منصفانہ اور شفاف انداز میں منعقد کرایا ہے۔
سروے کے مندرجات
اس سروے میں سیاسی جماعتوں کی پسندیدگی کے حوالے سےپی ٹی آئی کے لیے شرح 59 فیصد، پی پی پی 42 فیصد، ٹی ایل پی 41 فیصد، ن لیگ 38 فیصد، جماعت اسلامی 31 فیصد، جے یو آئی ایف اور پی ایم ایل کیو بائیس بائیس فیصد رہی جبکہ عوامی نیشنل پارٹی 21 فیصد، اور ایم کیو ایم پی 20 فیصد۔
اس سوال پر کہ اگر اگلے ہفتے انتخابات ہو جائیں تو آپ کس کو ووٹ دیں گے؟ 42 فیصد کا جواب تھا پی ٹی آئی، 20 فیصد نون لیگ، 12 فیصد پیپلز پارٹی، چار فیصد ٹی ایل پی، دو فیصد جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ، دو فیصد عوامی نیشنل پارٹی، دو فیصد جماعت اسلامی، دو فیصد ایم کیو ایم پاکستان اور ایک فیصد پی ایم ایل کیو۔
سروے میں پوچھا گیا کہ کس سیاسی جماعت کو کبھی ووٹ نہیں دیں گے تو جواب دینے والوں میں 28 فیصد نے نون لیگکا نام لیا، 21 فیصد نے پی ٹی آئی، نو فیصد نے پیپلز پارٹی، آٹھ فیصد ایم کیو ایم پاکستان، چھ فیصد جمعت علماء اسلام فضل الرحمن، تین فیصد عوامی نیشنل پارٹی، دو فیصد ٹی ایل پی، دو فیصد جے آئی اورایک فیصد پی ایم ایل کیو کا نام لیا۔ اداروں کے ناموں میں سب سے زیادہ ریٹنگ 88 فیصد پاکستان آرمی کی تھی، سیاست دانوں کی 39 فیصد، پارلیمنٹیرینز کی 47 فیصد جب کہ میڈیا اور عدلیہ کی 56 فیصد۔
ریٹنگ پر خوف کے بادل
تاہم کئی ناقدین سروے کے مندرجات سے اتفاق نہیں کرتے۔ معروف مصنفہ عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ موجودہ خوف کے ماحول میں کون آرمی کے خلاف بولے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آئی ایس آئی نے کاکٹر کی آمد پر آکسفورڈ یونیورسٹی میں آکر طالب علموں کے نقطہ نظر پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ تو یہ اثرو رسوخ ملک میں کیوں استعمال نہیں ہوا ہوگا۔ فوج کی ریٹںگ خوف کی وجہ سے ہے۔‘‘
فوج کیسے مقبول ہو سکتی ہے؟
سابق وزیراعلٰی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کا کہنا ہے سروے کے جو مندرجات ہیں وہ قطعی طور پہ زمینی حقائق کی نمائندگی نہیں کرتے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' آرمی اس وقت کیسے اتنی زیادہ مقبولیت حاصل کر سکتی ہے جب کہ اس کی سیاست، معیشت، کاروبار اور دوسرے شعبوں میں مداخلت پر نہ صرف سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں تنقید ہورہی ہے بلکہ پنجاب کے بھی کئی حلقوں میں اس کی مخالفت ہو رہی ہے۔‘‘
نواب اسلم رئیسانی کا دعویٰ تھا کہ پاکستان میں حقائق کو توڑ مروڑ کے پیش کیا جاتا ہے۔ ''سوشل میڈیا پر بھی اسٹیبلشمنٹ کے بہت سارے لوگ ہیں جو ان کی تعریف میں قصیدے کہتے ہیں اور قصیدہ کہنے والوں کی اکثریت سوشل میڈیا پہ جعلی اکاؤنٹس رکھتی ہے۔ اسی طرح یہ سروے بھی قابل اعتبار نہیں ہے۔‘‘
اسلم رئیسانی کا دعوی تھا کہ خوف وہ بنیادی عنصر ہے جس نے لوگوں کو اس طرح کی بات کرنے پہ مجبور کیا ہوگا کہ وہ آرمی کے لیے پسندیدگی کا اظہار کریں۔ '' پاکستان میں لوگوں میں اسٹیبلشمنٹ کا خوف ہے۔ میں خود بھی اسٹیبلشمنٹ سے ڈرتا ہوں کہ مجھے کسی بھی وقت اٹھایا جا سکتا ہے یا غائب کیا جا سکتا ہے۔‘‘
سروے قابل اعتبار نہیں
انسانی حقوق کی کارکن زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ گیلپ پاکستان کے سروے بہت زیادہ قابل اعتبار نہیں ہوتے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ماضی میں بھی ایسا رہا ہے کہ اس سروے نے یا تو فوج کے لیے پسندیدگی دکھائی ہے یا جو بھی اقتدار میں تھا اس کے لیے پسندیدگی دکھائی ہے۔‘‘
اعتراضات غلط ہیں
تاہم گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال گیلانی ان تمام اعتراضات کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فوج کی اچھی ریٹنگ نہ صرف پاکستان میں بہت بلندی پر ہے بلکہ دنیا کی کئی مغربی جمہوریتوں میں بھی یہ بلندی پر ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' 2012 ء کے سروے میں برطانیہ کی فوجوں کی اپروول ریٹنگ یا مقبولیت کی ریٹنگ 83 فیصد تھی۔ 92 فیصد عمر رسیدہ لوگ اور 73 فیصد نوجوانوں نے برطانوی آرمی کے حوالے سے اچھی رائے دی تھی۔‘‘
کوئی خوف کا عنصر نہیں
بلال گیلانی نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ خوف کی وجہ سے لوگوں نے آرمی کے حوالے سے اچھی رائے دی۔ '' فوج کی ریٹنگ ہمیشہ سے ہائی رہی ہے اور لوگ اس حوالے سے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ سوال پوچھنے والوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کا نام ظاہر نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے خوف کے عنصر کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔‘‘
سروے کس نے کرایا اور کیوں؟
بلال گیلانی کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ سروے ری ایمیجننگپاکستان کی درخواست پر کیا۔ ''میرے خیال میں یہ ایک سماجی تحریک ہے، جو سیاسی اور معاشی ایشوز پر شعور بیدار کرنا چاہتی ہے اور ان کا حل چاہتی ہے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے قابل عمل منصوبہ چاہتی ہے۔ اسی لیے انہوں نے غالبا یہ سروے کروایا۔‘‘