قذافی مخالف زیدان، لیبیا کے نئے وزیر اعظم
15 اکتوبر 2012علی زیدان ایک سابق سفارت کار ہیں۔ وہ 1980ء کی دہائی میں لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی کی حکومت سے منحرف ہو گئے تھے اور وہ قذافی کے ناقدین میں شامل تھے۔
علی زیدان کو قومی اسمبلی کے ٹیلی وژن پر براہ راست نشر ہونے والے اجلاس کے دوران وزیراعظم چنا گیا۔ طرابلس میں پارلیمان میں ہونے والی رائے شماری میں زیدان کو93 ووٹ ملے جبکہ 200 ارکان کی اسمبلی میں زیدان کے واحد حریف محمد الحراری 85 ووٹ حاصل کر پائے۔
زیدان کا انتخاب گزشتہ وزیراعظم مصطفیٰ ابو شغور کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹانے کے محض ایک ہفتے بعد ہوا ہے۔ ابو شغور کو ایسے افراد کو بطور وزراء اپنی کابینہ میں شامل کرنے پر ہٹایا گیا جن کے خلاف نہ صرف پارلیمان بلکہ پارلیمان سے باہر بھی مظاہروں کی شکل میں مخالفت کی جا رہی تھی۔
جنگ سے تباہ حال لیبیا کو ایک متفقہ سربراہ حکومت کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک میں تعمیر وترقی کا عمل شروع کیا جا سکے۔ نو منتخب وزیراعظم علی زیدان کا ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ لیبیا میں سکیورٹی کی بحالی پر خصوصی توجہ دیں گے: ’’سکیورٹی کی بحالی میری اولین ترجیح ہوگی، کیونکہ اس وقت لیبیا کو جتنے بھی مسائل در پیش ہیں ان کی جڑ سکیورٹی کی صورتحال میں ہے۔‘‘
علی زیدان کو اکثریتی اعتدال پسند اتحاد کے علاوہ نیشنل فورسز الائنس کی بھی حمایت حاصل ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حکومتی فیصلوں میں اسلام پسند اخوان المسلمون کے نقطہ نظر کو پیش نظر رکھنے کو تیار ہیں۔ اسی حوالے سے اپنی کانفرنس کے دوران زیدان کا کہنا تھا: ’’ اسلام ہمارا مذہب ہے اور یہ قوانین کا منبع بھی ہے اور شریعت کے خلاف کوئی بھی چیز نا قابل قبول ہے۔‘‘
لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی ملک کو زیادہ تر سیکولر بنیادوں پر چلا رہے تھے تاہم ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسلام پسند اور کٹر سیکولر نظریات رکھنے والے گروپوں کے علاوہ قبائلی اور علاقائی حوالوں سے بھی گروپ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
aba/ad (Reuters)