قذافی کے اہل خانہ لیبیا کی حکومت کے لیے خطرہ نہیں، مصطفٰی عبدالجلیل
17 اپریل 2012یہ بات لیبیا کے رہنما مصطفٰی عبدالجلیل نے کہی ہے۔ عبد الجلیل اتوار کو الجزائر کے دو روزہ دورے پر وہاں پہنچے تھے جس کا مقصد ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا تھا۔ انہوں نے الجزائر کے صدر عبد العزیز بوتیفلیکا سے ملاقات کی۔
لیبیا کے باغیوں نے گزشتہ برس نیٹو کے فضائی حملوں کی معاونت سے سات ماہ تک لڑائی کے بعد معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اکتوبر میں لڑائی کے اختتام پر معمر قذافی کو باغیوں نے پکڑ کر قتل کر دیا تھا۔
اس سے قبل یعنی ستمبر میں قذافی کی اہلیہ، بیٹی اور دو بیٹے ملک سے فرار ہو گئے تھے اور انہوں نے الجزائر میں پناہ لے لی تھی۔
قذافی کی بیٹی عائشہ نے کئی بار عرب ذرائع ابلاغ کو انٹرویو دیتے ہوئے لیبیا کی نئی حکومت کی مذمت کی ہے۔ نومبر میں انہوں نے شام کے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے لیبیا کے عوام پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے نئے حکمرانوں کی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔
مصطفٰی عبدالجلیل نے کہا کہ وہ قذافی کے اہل خانہ کو انسانی بنیادوں پر پناہ دینے کے اقدام کو سراہتے ہیں مگر انہیں یقین ہے کہ الجزائر ان لوگوں کو پناہ نہیں دے گا جو لیبیا کے لیے خطرہ بنیں۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’ہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ الجزائر کی سرزمین پر کسی بھی ایسی سرگرمی کی اجازت نہیں دی جائے گی جو مالی امداد یا تخریب کاری کے ذریعے لیبیا کے لیے خطرہ بنے۔‘
عبدالجلیل نے مزید کہا کہ ان کے دورے کے مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنا تھا اور دونوں رہنماؤں نے سرحدوں پر سکیورٹی کو بہتر بنانے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
الجزائر کے وزیر خارجہ مراد مدلسی نے کہا کہ دونوں ملکوں میں دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے کا مضبوط سیاسی ارادہ اور واضح بصیرت موجود ہے اور عبدالجلیل کے دورے سے نئی راہیں کھلیں گی۔
دونوں رہنماؤں نے جن دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا ان میں منظم جرائم، ہتھیاروں اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف جنگ کے علاوہ خفیہ نقل مکانی کو روکنا شامل ہیں۔
مارچ کے اواخر میں الجزائر اور لیبیا کے وزرائے داخلہ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت دونوں ملک سرحدوں پر مشترکہ گشت کریں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کریں گے۔
عبدالجلیل اور بوتفلیکا نے توانائی کے شعبے، صنعت، تجارت اور سرمایہ کاری میں سنجیدہ اور مؤثر تعاون بڑھانے پر زور دیا۔
عرب ملک شام کے سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے انہوں نے ’مشترکہ عرب مؤقف‘ پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ ایلچی کوفی عنان کے پیش کردہ منصوبے کو کام کرنے کا موقع دیا جائے۔
(hk/at (AFP, AP