قزاقستان میں پارلیمانی انتخابات، سیاسی افق پر تبدیلی کے آثار نہیں
14 جنوری 2012سن 1991ء میں سابق سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے قزاقستان میں صدر نور سلطان نذر بائیف کی حکومت ہے۔ سن 2007ء کے پارلیمانی انتخابات میں بھی ان کی نورِ وطن پارٹی نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔
صدر نور سلطان نذر بائیف خود کو ایک ایسے رہنما کے طور پر ظاہر کرتے ہیں جو ملک میں جمہوری اصلاحات لانے پر کاربند ہے باوجودیہ کہ وہ لگ بھگ اکیس سال سے مسند اقتدار پر براجمان ہیں اور آہنی ہاتھوں سے ملک کو کنٹرول کر رہے ہیں۔
حال ہی میں انہوں نے ملک میں کثیر الجماعتی سیاست کو فروغ دینے کے اقدام کے طور پر ایک نئے انتخابی قانون کے ذریعے کچھ رعایات دی تھیں۔ اس کے تحت ملک میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کو ایک سو سات رکنی ایوان زیریں میں دو نشستیں دی جائیں گی۔ اس سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ دوسرے نمبر پر رہنے والی جماعت کو پارلیمان میں جگہ بنانے کے لیے کم از کم سات فیصد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔
اتوار کے انتخابات سے قبل نور وطن پارٹی کے لیے حقیقی معنوں میں خطرہ بننے والی جماعتوں کو مقابلے میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے یا پھر مختلف چالوں سے ان کا دم خم ختم کر دیا گیا ہے۔
اب دوسرے نمبر پر اک زہول پارٹی کے آنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے جو کاروباری پالیسیوں کی حامی ہے اور حکومت سے ٹکراؤ سے گریز کرتی ہے۔
قزاقستان تیل، گیس اور معدنیات کے وسیع ذخائر سے مالا مال ہے اور ملک میں موجود خوشحالی اور استحکام کی وجہ سے نور وطن پارٹی اور صدر نور سلطان نذر بائیف کو کافی حمایت بھی حاصل ہے۔ تاہم اس بار کے قومی انتخابات بدامنی اور تشدد کے سائے میں منعقد ہو رہے ہیں۔
دسمبر میں قزاقستان کے مانگستو صوبے میں واقع زہاناؤزن شہر میں تیل کی ریفائنریوں میں کام کرنے والے کارکنوں کی مئی سے جاری ہڑتال کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے تھے، جن کے نتیجے میں کم از کم 16 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان ہنگاموں کے ملک کے دیگر شہروں پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کے خدشے کے پیش نظر صدر نور سلطان نذر بائیف نے وہاں کا دورہ کر کے مرنے والوں کے لواحقین سے اظہار ہمدردی بھی کیا تھا۔
انہوں نے رواں ہفتے ایک ثقافتی تقریب میں یہ بھی کہا کہ عالمی عدم استحکام کے دوران پارلیمانی انتخابات کو ملک میں اتحاد کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔
قزاقستان میں عدم استحکام کے امکان نے مغرب کو بھی تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے کیونکہ قزاقستان اس کے لیے تیل اور گیس کی فراہمی کا ایک بڑا ذریعہ بنتا جا رہا ہے اور افغانستان میں امریکی فورسز کو جاری رسد کے شمالی راستے میں ایک کلیدی کردار کا حامل ہے۔
اتوار کے انتخابات سے قبل کئی امیدواروں پر توجہ مرکوز ہو رہی ہے، جن میں صدر کی ارب پتی بیٹی داریگا اور معروف سائیکلسٹ الیگزینڈر ونو کوروف بھی شامل ہیں۔
48 سالہ داریگا نذر بائیفا صدر کی تین بیٹیوں میں سے سب سے بڑی ہیں اور انہیں ایک زمانے میں نذر بائیف کا جانشین تصور کیا جا رہا تھا۔ تاہم ان کے سابق شوہر راحت علیئیف کے حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزامات اور ملک سے فرار ہونے کے بعد ان کے یہ امکانات معدوم ہو گئے۔
گزشتہ ماہ نور وطن پارٹی کے خلاف حقیقی معنوں میں چیلنج بن سکنے والی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف قزاقستان کو معطل کرنے اور آلگا نامی سیاسی تحریک کا سیاسی جماعت کے طور پر اندراج کرنے سے انکار کے بعد قزاقستان کے سیاسی افق پر کسی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عاطف بلوچ