قندھار جيل سے قيديوں کی رہائی سے طالبان کے خلاف جنگ پر اثر پڑے گا
27 اپریل 2011اس سے نہ صرف افغان حکومت کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے بلکہ اس کے نتيجے ميں ملک ميں پھيلی طالبان بغاوت پر قابو پانے کی کوششوں کو شديد نقصان پہنچ سکتا ہے۔
افغان، امريکی اور دوسری غير ملکی افواج پچھلے ايک سال سے بھی زيادہ مدت سے باغيوں پر شديد حملے کررہی ہيں۔ ليکن اب تجزيہ نگاروں کا خيال ہے کہ جيل سے قيديوں کے رہا ہونے کے اس واقعے سے طالبان کے حوصلے اور بڑھ جائيں گے۔ يہ افغان حکومت اور نيٹو کی زير قيادت غير ملکی فوج کے لئے ايک بڑا دھچکہ ہے، جنہوں نے کئی مہينوں کی سخت لڑائی کے بعد حال ہی ميں قندھار ميں اپنی کاميابيوں پر فخر کا اظہار کيا تھا۔
طالبان کا کہنا ہے کہ پير کو قندھار جيل سے جو قيدی فرار ہوئے ہيں، اُن ميں طالبان کے 100 سے زائد کمانڈر بھی شامل ہيں۔ قندھار شہر ميں ايک آزاد محقق فيلکس کيون نے کہا: ’’جيل سے قيديوں کی رہائی کا، موسم گرما میں ہونے والی جنگ پر شديد اثر پڑے گا۔ اگر 100 سے زائد کمانڈروں کو رہا کرا ليا گيا ہے تو وہ اپنے آبائی علاقوں ميں مزيد طالبان کو متحرک کر سکيں گے۔‘‘
قيديوں کے فرار کا يہ سنگين واقعہ ايک ايسے وقت پيش آيا ہے جب ایک طرف تو گرمی کا موسم شروع ہونے سے پہلے طالبان باغيوں کے حملوں ميں ويسے ہی تيزی آجاتی ہے تو دوسری طرف سيکيورٹی کی ذمہ داری غير ملکی فوج سے افغان فوج اور پوليس کو منتقل کرنے کا مرحلے وار کام چند مہينوں کے اندر ہی شروع ہو نے والا ہے۔
بعض حکام کا کہنا ہے کہ جيل سے رہا ہونے والے صرف درميانے درجے کے جنگجو ہيں، ليکن کيون نے کہا کہ اگر يہ زيادہ تجربہ کار نہيں ہيں، تب بھی اس سے طالبان کے حوصلے بہت بڑھ جائيں گے۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ پير کو فرار ہونے والوں ميں سے کم از کم 70 قيديوں کو دوبارہ پکڑ ليا گيا ہے۔ قند ہار کی سينٹرل جيل کی سرنگ سے قيدی يکے بعد ديگرے باہر نکلتے رہے جہاں موٹر گاڑياں اُن کی منتظر تھيں۔
طالبان نے تين سال قبل بھی قندھار جيل پر حملہ کرکے 1000 سے زائد قيديوں کو رہا کرا لياتھا۔ اس حملے ميں انہوں نے ايک بارود سے بھرے ٹرک کو جيل کے گيٹ سے ٹکرا ديا تھا۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: افسراعوان