لاکربی حملے سے متعلق اصل حقائق جلد منظر عام پر، مغراہی
4 اکتوبر 2011خبر رساں ادارے روئٹرز سے ایک انٹرویو میں مغراہی نے کہا، ’’امید ہے کہ (لاکربی بم حملے) سے متعلق حقائق مستقبل قریب میں واضح ہو جائیں گے۔ چند ماہ کے اندر آپ کو نئے حقائق کا علم ہو گا۔‘‘
مغراہی کو سن 1988ء میں لندن سے نیویارک جانے والی امریکی فضائی کمپنی پین ایم کی پرواز 103 کو بم دھماکے سے تباہ کرنے کا قصور وار ٹھہرایا گیا تھا۔ اس دھماکے میں ہوائی جہاز کے مسافروں اور عملے کے علاوہ اسکاٹ لینڈ کے شہر لاکربی کے رہائشی 11 افراد سمیت کل 270 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہوائی جہاز میں 187 امریکی شہری بھی سوار تھے۔
اسے 27 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی، تاہم اسکاٹ لینڈ کی حکومت نے کینسر میں مبتلا ہونے کے باعث اسے آٹھ برس بعد یعنی سن 2009 ء میں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر رہا کر دیا تھا۔ تاہم انہوں نے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ حفاظتی تحویل میں ہی رہے گا۔
لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی کے دور میں انٹیلیجنس ایجنٹ کی حیثیت سے ملازمت کرنے والے مغراہی نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں کسی بھی قسم کے کردار کی تردید کی۔ اس نے کہا، ’’میرا کام انتظامی نوعیت کا تھا۔ میں نے کبھی بھی لیبیا کے باشندوں کو زک نہیں پہنچائی۔‘‘
عبد الباسط مغراہی نے اپنی سزا کو ڈھونگ قرار دیا۔ اس پر مقدمے کی سماعت اسکاٹ لینڈ کی عملداری کے تحت ہالینڈ کی ایک عدالت میں ہوئی تھی۔
اس نے بتایا کہ فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کے والد جم سوائر نے عدالت کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا اور اس کا ابھی تک مغراہی سے رابطہ ہے۔ مغراہی نے کہا، ’’ایک روز قبل جم سوائر نے مجھے ای میل میں بتایا کہ کینسر کی ایک نئی دوائی دستیاب ہے۔ وہ میری مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ میں یہ دوائی کس طرح حاصل کر سکتا ہوں۔‘‘
لاکربی بمبار نے کہا کہ اسے قذافی کی معزولی سے متعلق حالات کا کچھ زیادہ علم نہیں ہے اور یہ کہ قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے والے مسلح گروپوں نے اس کے گھر پر دھاوا بول کر اس کے ساتھ بدسلوکی کی۔ اس نے کہا، ’’میری چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا ہے۔ انہوں نے بیرونی دروازہ توڑ کر میری گاڑیاں چوری کر لیں۔‘‘
مغراہی نے کہا کہ اسے علاج کی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں حالانکہ اسے اسکاٹ لینڈ سے لیبیا واپس بھیجنے والے معاہدے کی شرائط میں یہ درج تھا۔ مغراہی نے کہا، ’’واپسی پر میرے ساتھ برا سلوک کیا گیا۔ ان پرآشوب حالات میں میرے پاس ادویات ختم ہو گئی ہیں۔ میرے اور برطانیہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کے باوجود میرے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ میں عام لوگوں کی طرح اپنی ادویات خود تلاش کروں۔’’
سابق انٹیلیجنس ایجنٹ نے کہا کہ وہ اپنے گھر میں اور اپنے اہل خانہ کے قریب مرنا چاہتا ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عابد حسین