لاہور میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں دو درجن طلبا زخمی
16 اکتوبر 2024پاکستانی صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں حکام کا کہنا ہے کہ ایک نجی کالج کی طالبہ کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے واقعے کے خلاف مظاہروں میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے دوران دو درجن سے زائد طلبا زخمی ہو گئے۔ لاہور سے آج بروز بدھ موصولہ اطلاعات کے مطابق یہ طلبا اس مبینہ واقعے کی خبریں سوشل میڈیا پر پھیلنے کے بعد پیر اور منگل کو کیے گئے پر تشدد احتجاج کے دوران زخمی ہوئے۔
طلبا نے ان مظاہروں کا آغاز اس پرائیویٹ کالج کے کیمپس سے کیا تھا لیکن بعد میں وہ منگل کے روز صوبائی اسمبلی کے باہر جمع ہو گئے، جہاں ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی۔ کالج انتظامیہ نے اس بات کی تردید کی کہ اس ادارے کی حدود میں کسی طالبہ کے ساتھ میبنہ جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ پیش آیا تھا۔
پاکستان میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد عام ہے لیکن اس قدامت پسند ملک میں اس نوعیت کے معاملات سے منسلک بدنامی کی وجہ سے اس طرح کے واقعات کو کم ہی رپورٹ کیا جاتا ہے۔ تاہم خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے خلاف احتجاج غیر معمولی بات ہے۔
صوبائی حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی ایک خصوصی کمیٹی نے بتایا کہ مبینہ طور پر متاثرہ لڑکی نے بتایا ہے کہ وہ دو اکتوبر کو اپنے گھر میں پھسل گئی اور اسے ہسپتال لے جایا گیا، جہاں اس کا گیارہ اکتوبر تک علاج کیا گیا۔ اس نے بتایا کہ وہ تین اکتوبر سے کالج سے غیر حاضر تھی۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے کہا ہے کہ وہ اس کیس میں سوشل میڈیا پر رپورٹس پھیلانے والے لوگوں کی شناخت کرنے کے علاوہ اس مقدمے کے دیگر پہلوؤں کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم برائے پائیدار سماجی ترقی (ایس ایس ڈی او) نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ 2023 میں پاکستان میں ریپ کے 7,010 واقعات رپورٹ ہوئے تھے، جن میں سے تقریباً 95 فیصد صوبہ پنجاب میں پیش آئے تھے۔
اس تنظیم کے مطابق، ''تاہم پاکستان میں سماجی بدنامیوں کی وجہ سے، جو متاثرہ خواتین کی طرف سے مدد حاصل کرنے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں، اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ کم رپورٹنگ کی وجہ سے ریپ کے کیسز کی اصل تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔‘‘
لاہور میں رواں ہفتے کا یہ احتجاج اس واقعے کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد سامنے آیا، جس میں ایک خاتون نے کہا تھا کہ جنوبی سندھ میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم پر ڈیوٹی کے دوران اسے مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ پولیس نے اس سلسلے میں اب تک تین افراد کو گرفتار کیا ہے۔ بعد ازاں اس متاثرہ خاتون کے شوہر نے مبینہ حملے کے بعد اسے یہ کہہ کر گھر سے باہر نکال دیا تھا کہ اس خاتون نے اس کے خاندان کا نام خراب کر دیا تھا۔
ش ر⁄ م م (اے پی)