لبنان میں تازہ ترین بم دھماکے کے بعد قومی مصالحتی عمل خطرے میں
29 ستمبر 2008پیر کے روز لبنانی شہر ٹریپولی میں یہ دھماکہ صبح کے ٹریفک کے رش والے گھنٹے میں ہوا۔ لبنان کی سلامتی کے نگراں حلقوں کے مطابق ایک گاڑی میں خفیہ طور پر نصب یہ بم دھماکہ عین اس وقت ہوا، جب اس کے نزدیک سے آرمی کی بس گزری۔ بس میں چوبیس لبنانی فوجی سوار تھے۔ شہر ٹریپولی کے اس خطرناک واقعے کے نتیجے میں دیگر تیس افراد شدید زخمی ہوئے ہیں۔
لبنان کے دوسرے بڑے شہر ٹریپولی میں ہر آنے والی شب جنگ اور مسلح جھڑپوں کا خوف لے کر آتی ہے۔ کبھی سنّی اور علوی گروپ کے مابین جھڑپیں تو کبھی لبنانی حکومت نواز عنا صر کا شام کے حامی شیعہ مسلم گروپ کے ساتھ تصادم۔
دوسری جانب لبنانی فوج نہایت کمزور ہے اور پوری طرح سے مسلح بھی نظر نہیں آتی اور اکثر جھگڑوں میں ملوث ہونے سے گریز کرتی ہے۔ شہر ٹریپولی دراصل سعودی عرب اور دیگر سنّی عرب ریاستوں کی ہمنوا اور مغربی دنیا کی طرف جھکاؤ رکھنے والی لبنانی حکومت اور شام اور ایران نواز شیعہ گروپ حزب اللہ کے مابین پائے جانے والے اختلافات کے سبب بحران اور جھگڑوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔
دوھہ معاہدے کے طے پائے جانے کے بعد سے بیروت اور دیگر علاقے کسی حد تک پر سکون تو ہوئے، تاہم لبنان کا شمالی حصہ اب بھی شورش زدہ نظر آ رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے، اس بارے میں چند روز قبل لبنان کے ایک مغرب نواز رکن پارلیمان مصطفی الوش نے جرمن ریڈیو اے آر ڈی کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ ٹریپولی میں دو مسلح گروپ پائے جاتے ہیں، جبکہ بیروت میں صرف ایک ایسا گروپ ہے، یعنی حزب اللہ۔
یہاں شام نواز عناصر اگرچہ اقلیت میں ہیں، تاہم اسلحے سے لیس ہیں۔ اس لئے یہاں ہر وقت مسلح جھڑپوں کا خطرہ رہتا ہے۔
مصطفی الوش ایک جراح ہیں۔ انہیں ٹریپولی کے تازہ ترین بم حلوں کے زخمیوں کا آپریشن کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کی طرح ایک اسلامی روحانی گروپ صلافی کے شیخ نور الدین غلایینی کا بھی ماننا ہے کہ لبنان کا اصل مسئلہ حزب اللہ اور اسکے ہتھیار ہیں۔ انہوں نے بھی لبنان کے ایک دوسرے کی مخالف قوتوں کے مابین مصالحت کی بات چیت کے کسی طرح کے مثبت نتائج پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مصالحتی معاہدہ برا نہیں ہے، تاہم یہ کافی نہیں ہے کیونکہ اس میں اسلحے کے مسائل کا حل شامل نہیں ہے۔
پیر کو ٹریپولی میں ہونے والے بم دھماکے کا شکار زیادہ تر لبنانی فوجی ہوئے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ کے اندر لبنان میں فوج پر ہونے والا یہ دوسرا بڑا حملہ ہے۔ ماضی میں لبنان میں متعدد بم دھماکے ہو چکے ہیں، جن کا ہدف سیاسی لیڈر، صحافی اور لبنانی فوج کے سپاہی رہے ہیں۔ بیروت کا شام مخالف پارلیمانی دھڑا کچھ عرصے سے اپنی سرحد سے نزدیک شامی فوج کی تعیناتی کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔ لبنانی پارلیمان کے اراکین اس قسم کی قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ شام لبنان کے تازہ ترین بم حملے کو لبنان میں اپنے فوجیوں کی واپس تعیناتی کے لئے ایک بہانے کے طور پر استعمال کر سکتا ہےجبکہ دمشق نے اس طرح کی قیاس آرائیوں کی تردید کر دی ہے۔ شام کے دارالحکومت دمشق میں گزشتہ ویک اینڈ پر ایک کار بم دھماکے میں سترہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
شام نے ایک اسلامی انتہا پسند خود کش بم حملہ آور کو اس دھشت گردانہ حملہ کا ذمہ دار قرار دیا۔ شام کی خبر رساں ایجنسی صنا کے مطابق اس خود کش بم حملہ آور کی گاڑی چھبیس ستمبر کو غالباً لبنان کے کسی عرب ہمسائے ملک سے آئی تھی۔ آیا یہ ملک عراق یا ارُدن تھا، یہ بات واضح نہیں ہے۔ اس دھشت پسندانہ کارروائی کے ذمہ دار فردکے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ اس کا تعلق کسی اسلامی گروپ سے تھا اور اس گروپ کے اراکین کو ماضی میں کئی بار گرفتار بھی کیا گیا۔