لڑکيوں کی فلاح و بہبود ميں سرمايہ کاری لازمی، اقوام متحدہ
1 دسمبر 2016عالمی سطح پر نوجوانوں کی تعداد ميں اضافہ نوٹ کيا گيا ہے، جس سے تمام ممالک اور سماجی نظاموں کے ليے نئے چيلنجز کھڑے ہو گئے ہيں۔ يہ انکشافات اقوام متحدہ کی جانب سے جمعرات يکم دسمبر کے روز کيے گئے۔ ’يونائیٹڈ نيشنز پاپوليشن فنڈ‘ نے اردن کے دارالحکومت عمان ميں اپنی سالانہ ’اسٹيٹ آف دا ورلڈ پاپوليشن‘ نامی رپورٹ جاری کی۔
اس موقع پر ادارے کے علاقائی کوآرڈينيٹر ڈينيل بيکر نے اس پيش رفت کے ممکنہ منفی و مثبت اثرات و نتائج کے بارے ميں بات چيت کی۔ انہوں نے بالخصوص عالمی سطح پر چوبيس برس سے کم عمر کے نوجوانوں ميں صنفی عدم مساوات کا بھی ذکر کيا۔ بيکر کے بقول لڑکيوں کے ليے مواقع پيدا کرنے ميں سرمايہ کاری نہ کرنا بالکل ايسا ہی ہے کہ جيسے غربت کی جانب بڑھا جا رہا ہو۔ انہوں نے کہا، ’’جب تک ہم اس ضمن ميں سرمايہ کاری نہيں کرتے، ہم مستقبل ميں غربت کی طرف بڑھ رہے ہيں۔‘‘
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ ميں بتايا گيا ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے ميں اس سال دنيا کی آبادی ميں ايک اعشاريہ ايک فيصد کا اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس مجموعی آبادی 7.349 بلين تھی جبکہ اس سال آبادی 7.433 بلين ہے۔
اس رپورٹ ميں دس سالہ لڑکيوں کی صورتحال کو ترقی ميں کاميابی يا ناکامی سے جوڑا گيا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں اس وقت دس سال کی عمر کے 125 ملين بچے موجود ہيں، جن کی 89 فيصد تعداد ترقی پذير ممالک ميں مقيم ہے، جہاں لڑکيوں کو تعليم کی فراہمی، طبی سہوليات کا ميسر ہونا اور تحفظ جيسے معاملات ميں شديد مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ اس رپورٹ ميں يہ بھی کہا گيا ہے ترقی پذير ممالک اضافی اکيس بلين ڈالر سالانہ حاصل کر سکتے ہیں يا گنوا بھی سکتے ہيں اور اس کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ اپنے ملک کی دس سالہ لڑکيوں کو بنيادی سہوليات فراہم کرنے ميں کس قدر فعال کردار ادا کرتے ہيں۔