لیبیا سے پاکستانیوں کو نکالنے کے لیے اسلام آباد سرگرم
28 فروری 2011حکام کے مطابق صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ہدایت کی روشنی میں دفتر خارجہ میں قائم کی گئی خصوصی ٹاسک فورس لیبیا میں پاکستانیوں کے ساتھ رابطے کے لیے چوبیس گھنٹے موجود ہے۔
خشکی، فضا اور سمندر کے راستے پڑوسی ممالک میں پہنچنے والے درجنوں پاکستانی شہریوں کو وطن واپس لانے کا سلسلہ جاری ہے۔ پیر کے روز دفتر خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لیبیا کے پڑوسی ممالک مصر، تیونس، الجزائر اور ترکی میں قائم پاکستانی سفارتخانوں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی سفارت کار لیبیا سے ان ممالک میں پہنچنے والوں کو ہر طرح کی سہولت بہم پہنچانے میں مصروف ہیں۔
لیبیا اور مصر کی مشترکہ سرحد پر پھنسے پاکستانیوں کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر ترجمان کا کہنا تھا:'' ان پاکستانیوں کی تعداد تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ بنیادی طور پر ہماری ایمبیسی نے ان پاکستانیوں کی فہرستیں مصری وزارت داخلہ کو مہیا کی ہیں، جس نے جانچ پڑتال کے بعد یہ فہرستیں مصری وزارت خارجہ کو بھجوا دی ہیں۔‘‘
ترجمان نے کہا:'' ہمارے لوگ سرحد پر چلے گئے ہیں تاکہ وہاں موجود پاکستانیوں کو بسوں میں بٹھا کر قریبی شہروں تک لے جایا جائے اور پھر اُن کی وطن واپسی کے انتظامات کیے جائیں۔‘‘
دوسری جانب لیبیا میں محصور پاکستانیوں کے اہل خانہ خاصے پریشان ہیں تاہم وہ پر امید بھی ہیں کہ مصر کی طرح لیبیا میں بھی حالات جلد معمول پر آ جائیں گے۔ لیبیا سے وطن واپس پہنچنے والے پشاور کے رہائشی جاوید اقبال نے بتایا :''گزشتہ ڈیڑھ سال سے وہاں مقیم تھے،زندگی اچھی گزر رہی تھی لیکن پھر گزشتہ آٹھ دن سے جو حالات خراب ہوئے، ہر وقت ہمیں ایسا لگتا تھا کہ شاید آج زندگی کا آخری دن ہوگا اور کل ہم زندہ نہیں رہیں گے۔‘‘
دریں اثناء پاکستان کی سمندری سرحدوں سے متصل خلیجی ملک اومان میں بھی حکومت مخالف مظاہروں کی اطلاعات نے وہاں پر مقیم اُن ہزاروں پاکستانی شہریوں کے اہل خانہ کو پریشان کر دیا ہے، جو روزگار کے سلسلے میں وہاں مقیم ہیں۔
دفتر خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجنوعہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی شہریوں کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے، جہاں بھی ضرورت محسوس ہوئی، ان کی مدد کی جائے گی تاہم ترجمان کا کہنا تھا کہ اومان جیسے برادر ملک میں کوئی بڑا احتجاج ہونے سے پہلے ہی حالات کی خرابی کے بارے میں تحفظات کا اظہار نہیں کیا جانا چاہیے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: امجد علی